الوقت - آجکل مقامی میڈیا میں یہ موضوع بہت گردش کر رہا ہے کہ لبنان پر صیہونی حکومت کے حملے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
یہ احتمال اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ صیہونی حکومت کے سیاسی اور فوجی حکام اس حملے کے امکانات اور اس حملے پر حزب اللہ کے رد عمل پر متعدد بیانات بھی دے چکے ہیں۔ صیہونی میڈیا نے اس حملے کو متعدد پہلوؤں سے پیش کیا ہے جبکہ حزب اللہ کے حکام اور لبنانی میڈیا نے بھی اس بارے میں اپنے مقالات اور تبصرے شائع کئے ہیں۔
علاقے کی نئی صورتحال اور علاقے میں سیاسیی، مذہبی اور نفسیاتی تبدیلیوں کے مد نظر حزب اللہ لبنان نے صیہونی حکومت کے احتمالی حملوں کے پیش نظر دھمکیوں کی سطح کو حیرت انگیز طور پر بڑھا دیا ہے۔ حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے انٹرویو میں یہ صیہونی دشمنوں کو یہ واضح پیغام دینے کی کوشش کی کہ صیہونی حکومت کے احتمالی حملوں کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ قابل توجہ یہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ کی جانب سے اس طرح کا رویہ دفاعی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ حزب اللہ نے ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی ذخائر پر حملے کی دھمکی دے کر پورے مسئلے کا رخ ہی بدل دیا۔ یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حزب اللہ نے موجودہ صورتحال میں ہی اس کا فیصلہ کیوں کیا؟ علاقے کے حالات کس رخ جار ہے ہیں کہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے یہ اسٹراٹیجک فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے؟
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے 14 جولائی 2006 کو تاریخی خطاب میں کہا کہ آپ لوگ بھرپور جنگ چاہتے ہيں، پھر ہم بھی بھر پور جنگ کی جانب جاتے ہیں اور اس کے لئے آمادہ بھی ہیں، حیفا کی جانب، میر باتوں پر یقین رکھیں، حیفا اور اس کے بعد اور اس کے بعد کے تمام علاقے ہمارے نشانے پر ہوں گے۔ صیہونی حکومت نے حزب اللہ کے خلاف بھرپور جنگ شروع کر دی تھی اور سید حسن نصر اللہ نے اس طرح اپنی دھمکی کی جغرافیائی سطح کو حیفا، اس کے بعد اور اس کے بعد اور حیفا کے بعد تک بڑھا دیا۔ اس دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے حزب اللہ کے جیالوں نے صیہونی حکومت کی جنگی کشتی اور مرکاوہ ٹینکوں کو نشانہ بناکر اور حیفا پر میزائیلوں کی بارش کر دی تاکہ غاصب صیہونی 33 روزہ جنگ میں اپنی کسی مراد کو نہ پا سکیں اور اور بے مراد جنگ کے میدان سے واپس لوٹیں۔۔
گرچہ سید حسن نصر اللہ کے ہر خطاب میں ہمیشہ دھمکیاں ہوتی ہے جیسے انہوں نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ الجلیل اور اس کے بعد۔ اس طرح سے انہوں نے بہت ہی منفرد انداز میں دھمکی کے انداز کو تبدیل کیا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں حزب اللہ نے ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اختیار کر رکھا ۔ 33 روزہ جنگ اور جنوبی لبنان کی آزادی بھی اسی حکمت عملی کا نتیجہ تھی لیکن اس با سید حسن نصر اللہ نے دھمکی کی سطح کو مقبوضہ فلسطین کے علاقے تک پہنچا دیا۔ انہوں نے اسی طرح اپنے چار سال پہلے المیادن ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر اسرائیل نے ہم پر حملہ کر دیا تو ہم صرف اپنے دفاع پر ہی اکتفا نہیں کریں گے، میں نے ایک دن اپنے سپاہیوں سے کہا تھا کہ آمادہ رہیں کوئی دن ایسا بھی آ سکتا ہے جب ہم کو الجلیل میں داخل ہونا پڑے۔ یہ مسئلہ اب بھی باقی ہے اور ہمارے آپشن کا حصہ ہے۔ اس جارحانہ حکمت عملی کے ساتھ ہی رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے مغربی کنارے کو مسلح کرنے کی بات بھی سامنے آئی۔ سید حسن نصر اللہ نے دو سال پہلے المیادین ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے الجلیل کے بعد کے اپنے قول کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ کیا مزاحمت کی طاقت میں تبدیلی واقع ہوئي ہے جو وہ الجلیل کے داخل ہونے کی بات کر رہی ہے؟ جی ہاں، مزاحمت کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ الجلیل میں داخل ہو جائے۔ مزاحمت اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ الجلیل میں داخل ہونے کو تیار ہے۔
ایک اور بات جس نے صیہونی حکومت کی نیند حرام کر دی وہ سید حسن نصر اللہ کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے حیفا میں امونیا گیس کے ذخائر کو تباہ کرنے کی دھمکی تھی تھی۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ مزاحمت کے پاس اسرائیل کو ہر جنگ میں شکست دینے کے لئے کافی ہتھیار اور وسائل ہیں، اسرائیلی ماہرین کا کہنا ہے کہ حیفا میں امونیا کے ذخائر پر حزب اللہ کا حملہ ایک ایٹمی بم کو دھمکے کے برابر ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ یہ امونیا کا ذخیرہ ابھی بھی حیفا میں ہے لیکن ہم نے جنوری میں صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں (گر چہ حیفا میں کچھ مقامات کو میزائلوں کا نشانہ بنایا لیکن) اس کو اپنی میزائل کا نشانہ نہیں بنایا۔
سید حسن نصر اللہ نے صیہونی ماہرین کی رپورٹ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ذخیرہ میں 15 ہزار ٹن گیس ہے اور اس حملہ دسیوں ہزار لوگوں کی موت کا سبب بن سکتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق تقریبا آٹھ لاکھ لوگ خطرے کے زون میں ہیں۔
انھوں نے صیہونی ماہرین کی رپورٹ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل ایک ایٹمی بم کی طرح ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ حیفا میں امونیا کے ذخیرے کا مطلب یہ ہے کہ لبنان کے پاس ایٹم بم ہے اور یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے، یہی صحیح ہے کہ ہمارے پاس ایٹم بم نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ حیفا میں امونیا کے ذخائر پر کچھ میزائیلوں کا حملہ ایٹم بم کے حملے جیسا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یہ حیفا ہمارے نشانوں میں سے ایک ہے۔
علاقے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور صیہونی حکومت کی دھمکیوں کے پیش سید حسن نصر اللہ کے یہ بیان وقت کی ضرورت بن گئے ہیں اور اسی لئے سید حسن نصر اللہ نے کہہ دیا کہ اب کی دفعہ اگر صیہونی حکومت نے لبنان پر جنگ مسلط کی تو ہمارے پاس سارے آپشن کھلے ہوں گے اور ہم بھی کھلی جنگ کریں گے۔