الوقت- آج عالمی سطح پر یہ سوال گردش کررہا ہے کہ امریکہ آئندہ کب تک پوری دنیا کی سیاست پر بلاشرکت غیرے قابض رہے گا کیا روس کی طرح کوئی اور طاقت میدان مین آئے گی اور کیا وہ طاقت عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوجائیگی ۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور چین کا حالیہ تعاون اور مختلف شعبہ زندگی میں مشارکت اسی طرح برکس اور شنگھائی تعاون جیسے علاقائی اتحاد امریکی طاقت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش ہے۔روس اور چین نے ایسے لگتا ہے کہ تقسیم کار کرلیا ہے ایک نے عسکری میدان میں امریکہ کی اجارہ داری کو چیلنج کرنا ہے جبکہ دوسرے اقتصادی میدان میں امریکہ کی من مانی کو للکارنا ہے ۔حال ہی میں یہ خبریں سامنے ائی ہیں کہ چین اور روس کی دوسری مشترکہ فوجی مشقیں جمعرات بیس اگست سے بحیرہ جاپان میں شروع ہوئی ہیں۔ روس اور چین کی دوسری فوجی مشقیں بحیرہ جاپان کے علاوہ ولادی وستوک کے ساحلوں پر بھی ہورہی ہیں۔ان مشترکہ فوجی مشقوں میں چین اور روس کے بحریہ کے ڈسٹرائر اور ديگر بحری جنگی جہاز شرکت کررہے ہیں۔ یاد رہے چین اور روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دو مستقل رکن اور دنیا کے دو بڑے بااثر ممالک ہیں جو علاقائي اور عالمی سطح پر کافی اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ یہ دو بڑی طاقتیں ایک دوسرے کی ہمسایہ ہیں۔ بلاشک روس اور چین کی نوروزہ مشترکہ فوجی مشقوں پر علاقائي اور عالمی سطح پر وسیع رد عمل ظاہر کیا جائے گا البتہ چین کےجنوبی اور مشرقی سمندروں میں اس کے ساتھ سرحدی اختلافات رکھنے والے ملکوں نے ان مشقوں پر احتجاج شروع کردیا ہے۔ ان مشقوں کے تعلق سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کے بحری جنگي جہاز آبنائے تسو شیما سے گذرے ہیں۔ آبنائے تسو شیما چین کےمشرقی سمندر کو بحیرہ جاپان سے متصل کرتا ہے۔ چونکہ آبنائے تسو شیما پر چين اور جاپان اختلاف رکھتے ہیں لھذا چین کی بحریہ کے جنگی جہازوں کا اس سمندری راستے سے گذرنا چین کی جانب سے جاپان کی سرحدوں کی خلاف ورزی اور اس کے سرحدی دعووں کو نظر انداز کرنا قراردیا جاسکتا ہے۔
چین اور روس کے درمیان پہلی مشترکہ فوجی مشقیں گذشتہ مہینوں میں بحیرہ اصفر میں انجام پائي تھیں۔ روس اور چین نے دوطرفہ اعتماد سازی اور اسٹراٹیجیک تعاون میں توسیع لانے کے لئے مشترکہ فوجی مشقیں کرنے کا پلان بنایا ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ داخلی سطح پر ان فوجی مشقوں کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بادی النظر میں چین اور روس کا ھدف مرکزی ایشیا اور قففاز میں فوجی، دفاعی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کرنا ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کی نظر میں دونوں ملکوں کا فوجی تعاون ان کی اسٹراٹیجیک مشارکت کا نہایت اہم حصہ ہے۔ اس کےعلاوہ چین اور روس مشترکہ فوجی مشقوں میں اپنے فوجیوں اور ہتھیاروں کی توانائيوں کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ واضح رہے اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ چین اور روس کی مشترکہ فوجی مشقوں کو مشرق وسطی میں آنے والی وسیع تبدیلیوں، یوکرین کے بحران، اور یوکرین کی سرحدوں تک پہنچنے کی نیٹو کی کوششوں اور مغرب اور نیٹو کی اعلانیہ دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کی تدابیر قرار دیا جارہا ہے۔ادھر روس کے سیاسی سین سے سابق صدر یلتسین کے نکلنے کے بعد ماسکو میں ایسے لوگ برسر اقتدار آئے ہیں جو چین کے ساتھ تعاون بالخصوص فوجی اور اسٹراٹجیک تعاون پر تاکید کرتے رہتے ہیں۔ اسی نقطہ نظر کے مطابق چین، روس کے ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار بن چکا ہے اور اس مسئلے سے قطع نظر چین عالمی سطح پر روس کا ایک اسٹراٹیجیک حلیف بھی بن چکا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں بیجنگ اور ماسکو کے درمیان اسٹراٹجیک تعاون بہترین اور اعلی ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں بالخصوص نیٹو کے اقدامات اس بات کا سبب بنے ہیں کہ چین اور روس نے حالات کا صحیح اندازہ لگا کر نیٹو کے خلاف فوجی اتحاد قائم کیا ہے کیونکہ ساری دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ امریکہ بہت سے ملکوں کے ذخائر اور دولت پر مکمل قبضہ کرنے کے پلان پر عمل کررہا ہے۔ اگر امریکہ کی توسیع پسندی کی پالیسیوں کی روک تھام کی تدابیر نہ اپنائي جائيں تو امریکہ بہت جلد روس اور چین کے دروازوں تک پہنچ جائے گا۔ اسکی ایک مثال مرکزی ایشیاء اور قفقاز میں امریکہ کی فوجی موجودگي ہے۔ دوسری طرف اکثر تـجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کا مستقبل ایشیا کے گرد گھومے گا امریکہ ایشیا میں بری طرح ناکام ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف چین بڑی سنجیدگی اور پلاننگ کے ساتھ ایشیا کو ایک لڑی میں پرونے کی کوشش کررہا ہے چین کی افغانستان کے امور میں دلچسپی اور طالبان مذاکرات میں پاکستان کے ساتھ ملکر آگئے بڑھنا اسی سلسلہ کی کڑیاں نظر آتا ہے اسی طرح ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان اور روس کا قریب آنابھی اتفاقی امر نہیں ہے ۔