الوقت- روس کے صدر نے کہا ہے کہ اب ایران اور روس کے تعلقات نئے مرحلے میں داخل ہونے چاہئیں-
اسلامی جمہوریہ ایران کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈ کے سربراہ ڈاکٹر سید صفدر حسینی سینٹ پیٹرز برگ میں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کی غرض سے روس کے دورے پر ہیں- انھوں نے اس اجلاس میں شریک پچیس ممالک کے نیشنل ڈیویلپمنٹ فنڈز کے سربراہوں کے علاوہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سید صفدر حسینی نے پابندیوں کے دوران ایران کو حاصل ہونے والے تجربات کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ روس بھی ان تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے استقامتی معیشت کی بنیاد پر اپنا اقتصادی روڈ میپ تیار کر سکتا ہے۔ اس موقع پر روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی کہا کہ ایران اور روس کے درمیان ایک صدی سے زیادہ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے بڑے اچھے تعلقات ہیں اور ضروری ہے کہ ان تعلقات میں توسیع لائی جائے اور ان کو نئے مرحلے میں داخل کیا جائے-ادھر روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ میں انیسواں عالمی اقتصادی اجلاس سنیچر کو اختتام پذیر ہوگيا۔ اس اجلاس میں بعض ممالک کے سربراہوں، بڑی کمپنیوں کے مینجنگ ڈائریکٹروں اور روسی حکام و ماہرین نے شرکت کی۔ یہ اجلاس اٹھارہ سے بیس جون تک جاری رہا۔ اس سال روس کے اقتصادی اجلاس میں ایک سو بیس ملکوں نے شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر روسی صدرکے مشیر اور اجلاس کے سیکریٹری نے کہا کہ اس اجلاس کے موقع پر روس کےساتھ پانچ ارب یورو سے زائد مالیت کے معاہدے ہوئے ہیں۔ ا س کے علاوہ سینٹ پیٹرز برگ اجلاس کے موقع پر دو سو پانچ مفاہمتی نوٹس پر بھی دستخط کئے گئے ہیں۔ کانفرنس کے موقع پر شرکاء نے روسی صدر پیوٹن سے ملاقات کی۔ روسی حکام نے اس موقع پر بہت سے ملکوں کے حکام سے ملاقات میں مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ اسی موقع پر یونان اور روس کے درمیان دو ارب ڈالر کا گيس کا معاہدہ بھی ہوا۔ اس معاہدے کےعلاوہ روس میں ٹویوٹا گاڑیاں بنانے کا معاہدہ بھی ہے جس کے تحت روس میں سالانہ ایک لاکھ ٹویوٹا گاڑیاں بنائي جائيں گي اس کے علاوہ سینٹ پیٹرز برگ میں پروٹون تھراپی کا مرکز بھی کھولاجائے گا۔ اس کانفرنس کے بعد بعض مغربی حکام کے یہ دعوے بے بنیاد ثابت ہوگئے کہ مغربی پابندیوں سے روس گوشہ نشین ہوگيا ہے۔ واضح رہے اس سال سینٹ پیٹرز برگ کی اقتصادی کانفرنس خاص اہمیت کی حامل تھی کیونکہ مغرب نے روس کو یوکرین کے مسئلے پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کےلئے مختلف طرح کی پابندیاں عائد کررکھی ہیں لیکن اس کے باوجود روس نے مختلف ملکوں کے سربراہوں اور حکام کو اس کانفرنس میں بلانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ سینٹ پیٹرز برگ کی اقتصادی کانفرنس کے موقع پر طے ہونے والے معاہدوں کی مالیت بھی کافی زیادہ ہے۔ دراصل روس امریکہ اور یورپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہا ہے کہ روس کوئي ایسا ملک نہیں ہے جس کے ساتھ امریکہ اور یورپ من مانی کرسکیں اور اس سے اپنے مطالبات منواسکیں۔ روس نے اپنی اقتصادی توانائیوں کا مظاہرہ کرکے نہ صرف مغرب کی اقتصادی پابندیوں کو چیلنج کیا ہے بلکہ اپنی نئي پالیسیوں سے بعض مسائل میں امریکہ بالخصوص یورپی یونین کو پسپائي پر مجبور کردیا ہے۔ اس کا ایک واضح نمونہ یونان کے ساتھ گيس پائپ لائن بچھانے اور یونان میں گيس مرکز بنانے کا معاہدہ ہے۔ یہ پائپ لائن ترکش اسٹریم کو آگے بڑھاتے ہوئے روس کی گيس بحیرہ اسود سے یونان پہنچائے گی اور وہاں سے اس کے ذریعے یورپ کے مختلف ملکوں کو گيس پہنچائی جائے گی۔ ترکش اسٹریم پائپ لائين دراصل یورپی ملکوں کو روس کا جواب ہے کیونکہ یورپ نے روس کی جنوبی گيس پائپ لائن پرعمل درآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں۔ اس پائپ لائن سے روسی گيس بلغاریہ سے یورپ کے مختلف ملکوں تک جانے والی تھی۔ مجموعی طور پر روس نے سینٹ پیٹرزبرگ اقتصادی کانفرنس اور ترکش اسٹریم گيس پائپ لائن بچھا کر امریکہ اور یورپی یونین کے مخاصمانہ اقدامات کا مذاق اڑایا ہے۔