الوقت- جنیوا مذاکرات ایسے حالات میں ناکام ہوئے ہیں کہ اس ملک کے عوام سعودی حکومت کے وحشیانہ حملوں کے سبب سخت ترین حالات میں زندگی گذار رہے ہیں۔ یمن کی صورتحال اتنی بدتر ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ نے اس جنگ زدہ ملک کے دو کروڑ دس لاکھ افراد کے لئے ایک اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی امداد کی درخواست کی ہے اور اس ملک میں عنقریب ہی انسانی المیہ رونما ہونے کی بابت خبردار کیا ہے- قابل ذکر ہے کہ بحران یمن کے حل کے لئے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے دوران، سعودی عرب نے یمن کے خلاف اپنے حملے مزید تیز کردیئے تھے یمن پر سعودی عرب کے حملے کے حوالے سے کہ جو عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر مبنی اقدام تھا، اقوام متحدہ کی سلامتی کی کارکردگی نے، یمن میں عدم استحکام اور بدامنی میں اضافے کے لئے زمین ہموار کی ہے۔
اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ کسی بھی ملک میں دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں اور اثر و رسوخ میں اضافے کے لئے اہم ترین عامل، سیاسی عدم استحکام اور بد امنی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپریل 2015 میں قرارداد نمبر 2216 جاری کر کے یمن پر سعودی عرب کے حملے کے لئے جواز فراہم کیا اور اسی طرح منصور ھادی کی مفرور حکومت کو قانونی قرار دیتے ہوئے یمن میں بدامنی میں اضافے اور اقتدار کے خلاء کے لئے زمین ہموار کی ہے۔
جنیوا میں یمنی گروہوں کے مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ہی ختم ہوگئے تاہم اقوام متحدہ پر امید ہے کہ مذاکرات کا نیا دور جنگ بندی پر منتج ہوگا۔
یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسماعیل ولد شیخ احمد نے جمعے کی شام جنیوا مذاکرات کے اختتام کے بعد کہا کہ مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ عمل میں نہیں آسکا، اس لئے اگر مذاکرات کا نیا دور شروع ہو تو بہت جلد جنگ بندی پر اتفاق حاصل ہوسکتا ہے- یمن کے مستعفی اور سعودی عرب بھاگ جانے والے وزیر خارجہ ریاض یاسین نے بھی نامہ نگاروں کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ امید کے برخلاف کوئی کامیابی حاصل نہ ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں ہم ناکام ہوگئے ہیں- یمن کے مستعفی وزیر خارجہ نے کہا کہ یمن کے بحران کے پر امن حل کے لئے کوششیں جاری رہیں گی- ساتھ ہی ریاض یاسین نے جنیوا مذاکرات کی ناکامی کا الزام عوامی انقلابی تحریک انصار اللہ پر عائد کیا۔ حالانکہ انصاراللہ نے اس سے قبل جنیوا مذاکرات کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ یمنی فریق ملکر ملک میں جاری جھڑپوں کے خاتمے کے لئے کوئی راہ حل ڈھونڈھ نکالیں گے- یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصار اللہ نے سعودی عرب کو یمن کے سیاسی دھڑوں کے درمیان مفاہمت میں اہم ترین روکاوٹ قرار دیا ہے۔ تحریک انصاراللہ کے وفد کے سربراہ نے جنیوا میں کہا کہ یمنی گروہوں کے درمیان جنیوا مذاکرات میں اتقاق رائے حاصل ہونے میں اہم رکاوٹ سعودی عرب تھا- انہوں نے کہا کہ ہمارا موقف شروع سےہی واضح ہے اور ہم یمن میں جنگ بندی چاہتے ہیں اور جمعے کے روز بھی یمن کے سیاسی گروہوں نے یمن میں انسان دوستانہ جنگ بندی کے قیام کا خیر مقدم کیا ہے- ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمہ گیر جنک بندی کا سمجھوتہ طے پائے جو یمن میں سیاسی عمل کے آغاز کے ہمراہ ہو- ایسا خیال کیا جارہا ہے کہ بعض فریقوں کی یہ کوشش تھی کہ جنیوا مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے، اسی لئے سعودی عرب سے وابستہ یمن کی مفرور حکومت کے وفد نے اس بارے میں کوئی تجویز پیش نہیں کی-
سلامتی کونسل نے اپنے حالیہ بیان میں ایک مرتبہ پھر عالمی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ سنجیدہ طور پر، دہشتگردی کے خلاف مہم کے حوالے سے یمن کے حکام کے ساتھ تعاون کریں۔
جینوا میں یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے وفد کے سربراہ حمزہ الحوثی نے آل سعود کو امن مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ حمزہ الحوثی نے جمعرات کی رات جینوا مذاکرات کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود نے جینوا مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل و ذرائع استعمال کئے ہیں۔ انصاراللہ کے اس سینئر رہنما نے کہا کہ انصاراللہ نے نیک نیتی کا ثبوت پیش کیا ہے اور وہ جنگ بندی کی خواہاں ہے لیکن آل سعود نے جینوا مذاکرات میں متعدد شرطیں لگا کر انہیں ناکام بنانے میں کوئي کسر نہیں چھوڑی۔ واضح رہے یمن کے مختلف گروہوں نے جینوا میں پانچ دنوں تک مذاکرت کئے ہیں لیکن افسوس کہ یہ مذاکرات ناکام رہے۔ ان مذاکرات میں بعض ایسے گروہ بھی شامل تھے جنہیں تحریک انصاراللہ کی حمایت حاصل نہيں تھی۔ جینوا مذاکرات میں ہرچند کوئي کامیابی حاصل نہیں ہوئي لیکن آئندہ مذاکرات کی امید بھی ختم نہیں ہوئي ہے۔ سعودی عرب نے بھرپور کوشش کی تھی کہ تحریک انصاراللہ مذاکرات سے قبل اقوام متحدہ کی قرارداد بائيس سولہ کو پیشگي شرط کے طور پر تسلیم کرلے۔سعودی عرب اور اسکے پٹھوؤں نے سابق مفرور صدر عبد ربہ منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کی بھی کوشش کی تھی۔سعودی عرب نے یمن کے بارے میں کسی بھی طرح کے مذاکرات کے لئے منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی کی شرط بھی لگار کھی ہے۔ سعودی عرب نے تین مہینوں سے یمن کے نہتے عوام پر وحشیانہ حملے شروع کررکھے ہیں لیکن اسے اب تک کوئي بھی ھدف حاصل نہیں ہوا ہے۔ اسی وجہ سے آل سعود یمن کے بحران کو حل کرنے کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں بھی کھڑی کررہی ہے۔ بنیادی طور پر سعودی عرب کی جارحیت کا مقصد یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کو ختم کرنا ہے لیکن تحریک انصاراللہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور اسکی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔