الوقت ـ عرب اور علاقے كے دوسرے حكام كيمپ ڈيوڈ ميں خليج فارس كونسل كے سربراہوں كے امريكي صدر باراك اوباما سے ملاقات كے منتظر ہيں۔سينتيس سال پہلے بھي اسي مقام پر غاصب اسرائيل اور مصر كے درميان ايك شرمناك معاہدہ ہواتھا۔چودہ ستمبر 2015 اور 17مئي 1987 ميں ہونے والي ان دونوں ملاقاتوں ميں بظاہر كافي فرق ہے البتہ ان دونوں ملاقاتوں كو انجام دينے ميں امريكہ كا بنيادي كردار ہے۔يہي وجہ ہے كہ كيمپ ڈيوڈ ميں ہونے والي اس ملاقات كے بارے ميں مختلف سوالات اٹھ رہے ہيں۔اس تجزيہ ميں ان سوالوں كا جواب دينے كي كوشش كي جائيگي۔پہلا سوال يہ ہے كہ كيمپ ڈيوڈ ميں ہونے والي حاليہ ملاقات اور اسرائيل اور مصر كے دوميان ہونے والي ملاقات ميں كيا فرق ہے اور اس ملاقات سے اسرائيل كو كيا فوائد حاصل ہو سكتے ہيں ۔
كيمپ ڈيوڈ .. ايك شرم ناك معاہدہ
1979 ميں اسرائيل اور مصر كے درميان ہونے والا معاہدہ اسرائيل اور عربوں كے درميان پہلا باضابطہ رابطہ اور معاہدہ سمجھا جاتا ہے اس معاہدے كے زريعے انورسادات نے پہلي بار غاصب اسرائيل كے ساتھ عربوں كے تعلقات كو استوار كرنے كي كوشش كي تھي۔كيمپ ڈيوڈ معاہدہ كي بعض شقيں ايسي خطرناك اور تكليف دہ تھيں كہ مصر سميت عرب دنيا اور خاص كر فلسطيني كاز كو اس سے شديد نقصان پہنچا اور جسكے منفي اثرات آج بھي محسوس كئے جارہے ہيں۔اسي معاہدے كي بنا پر مصر كو صحرائے سينا ميں اپنے فوجي كم كرنے پڑے اور مصر كو اس بات كا پابند ہونا پڑا كے اسرائيل كے خلاف كسي بھي عرب ملك كي فوجي حمايت نہ كرے۔اس شرمناك معاہدے كے مطابق مصري صدرانور سادات اس بات پر مجبور تھا كہ فلسطيني مجاہدوں كے فوجي ٹھكانوں سے اسرائيل كي خفيہ ايجنسي كو مطلع كرے۔مصر اور امريكہ كے درميان دوسرا معاہدہ جو انورسادات اور جمي كارٹر كے درميان ہوا تھا اس ميں امريكہ كے پانچ ہزار فوجيوں كو مصر ميں تعينات ہونے كي اجازت دي گئي جسكے بدلے ميں مصر امريكہ كي امداد اور حمايت كا مستحق ٹھرا۔اسي دوران امريكہ اور اسرائيل كے درميان جو تيسرا معاہدہ ہوا اس ميں مذاكرات كے عمل كو بڑھاتے ہوئے ايك مشتركہ فوجي معاہدے پر متفق ہوئے۔كيمپ ڈيوڈ ميں ہونے والے تمام معاہدے عالم اسلام باخصوص عربوں كے لئے ہميشہ خطرناك اور انتہائي سنگين ثابت ہوئے۔كيمپ ڈيوڈ ميں ہونے والے معاہدوں كي تاريخ كے تناظر ميں اس وقت يہ سوال اٹھتا ہے كہ اس دفعہ كيمپ ڈيوڈ كيمپ ميں اكھٹے ہونے والے اسلام اور فلسطين كے خلاف كيا شيطاني منصوبہ بندي كرتے ہيں۔2015 ميں ہونے والے اس اجلاس ميں اسرائيل شامل نہيں ہے ليكن اس سے پہلے كے معاہدون ميں وہ براہ راست شريك رہا ہے اس كے عدم موجودگي سے اس اجلاس پر كيا اثرات مرتب ہونگے اس سوال كا جواب تلاش كرنے كي ضرورت ہے ۔ كيا امريكہ كي ترجيحات ميں تبديلي آگئي ہے يا يہ صرف ايك حربہ ہے تاكہ اسرائيل كو بظاہر دور ركھ كر اس كے مفادات كا خيال ركھا جائے۔
2015 كا كيمپ ڈيوڈ اجلاس
كہا جارہا ہے كہ اس اجلاس كے حوالے سے سعودي شاہ سلمان اور امريكي صدر باراك اوباما كے درميان مختلف مسائل پر تفصيلي تبادلہ خيال ہوا ہے تاہم اس اجلاس ميں خليج فارس كے ممالك كے دفاع كے لئے ايك حفاظتي سپر يا حصار كا قيام،ايران كے ايٹمي پروگرام كو محدود كرنا،شام ميں بشار اسد كي حكومت كے خاتمے اور يمن كے مسئلے كو خصوصي طور پر زير بحث لايا جائے گا۔آگاہ زرائح كا كہنا ہے كہ اس اجلاس كے مسودے ميں خليج فارس كے ممالك كے دفاع پر تاكيد كے علاوہ امريكہ كي طرف سے پيٹرياٹ ميزائل اور ديگر اسلحوں كي فراہمي كو بھي يقيني بنانے پر تبادلہ خيال ہوگا اسكے علاوہ خليج فارس كے پانيوں ميں مشتركہ فوجي مشقوں كو بھي حتمي شكل دي جاسكتي ہے
.اس اجلاس كے مجوزہ اختتامي بيان ميں شام كے انتخابات كو مسترد كرنےاور شام سميت خطے ميں تكفيريوں كے اثرو نفوزبڑھانے پر بھي تاكيد كي گئي ہے تاكہ اس كا فائدہ اسرائيل كو پہنچايا جاسكے اور امريكہ كي اسلحے كي صنعت كو مالي بحران سے نكالنے ميں عملي مدد كي جائے۔
جيسے كے پہلے بھي اشارہ كيا گيا ہے كہ امريكہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا كر اور اس خطے كے شيخوں كو ايران سے ڈرا كر اور ايران وفوبيا كا پروپگينڈا كركے عرب ڈكٹيٹروں پر اپنا اسلحہ فروخت كرے گا۔امريكہ سے زيادہ كون اس مسئلے سے فائدہ اٹھا رہا ہے امريكہ كے ايك سو پچاس ارب ڈالر كے ہتھيار بڑي آساني سے عربوں پر بيچدئے جائيں گے۔اب اس كي كون ضمانت دے سكتا ہے كہ اس دفعہ كيمپ ڈيوڈ ميں عربوں اور اسرائيل كے درميان معاہدہ نہيں ہوگا۔كيا عرب سربراہون كو اس بات پر شرم نہين آئے گي كہ وہ اس غاصب حكوت سے اپنے رابطے بحال كريں گے اور اسكي خدمت كررہے ہيں جس نے انكے قبلہ اول پر غاصبانہ قبضہ كرركھا ہے ۔
اس وقت يہي كہا جاسكتا ہے كہ كيمپ ڈيوڈ كے پہلے زلت آميز معاہدے كے بعد اب 2015 كا معاہدہ بھي پہلے والے معاہدے سے كم نہيں ہوگا تاہم اس ميں بھي امريكہ كے اقتصادي مفادات اور اسرائيل كي سلامتي كے تحفظ كو ترجيح دي جائيگي البتہ خليج فارس كے عرب حكمران اپنے اقتدار كو بچانے كے لئے امريكہ اور اسرائيل سے ہرطرح كا معاہدہ كرنے كے لئے ہميشہ آمادہ و تيار ہيں۔