الوقت - صوبہ بدخشان کےعلاقے ’’جرم، یمگان، وردوج، کران و منجان اور ارغنج خواہ‘‘ کو شدید سیکورٹی خطرات لاحق ہیں اور ہر علاقے میں ۱۰۰ سے زائد عسکریت پسند موجود ہیں۔ اس نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اندرونی دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ بیرونی عسکریت پسند بھی شامل ہیں مزید کہا کہ اکثر بیرونی دہشت گرد راغستان کے علاقے میں ہیں جن کی موجودگی نےاس علاقے کو سیکورٹی خطرات سے دوچار کیا ہے۔ بدخشان کے ڈپٹی گورنر نے اس صوبے کی آرمی اور اسلحہ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم مرکزی حکومت اور ملک کے دفاعی اداروں سے فوج اور اسلحہ بھیجنے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ طے پایا ہےکہ افغانستان کی ۳۰۰۰ تازہ دم آرمی اس صوبے میں بھیجی جائے گی جو اس صوبے میں موجود دہشتگردوں کو سرکوب کرنے کے لئے اقدامات کرے گی۔
بیدار نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے صدر، اعلی حکام ، وزیر خارجہ اور چیف آف آرمی سٹاف کے اس صوبےمیں دورے کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے منصوبے اعلیٰ حکام کو پیش کئے گئے ہیں اور ہم مرکزی حکومت کے سنجیدہ اقدامات کے منتظر ہیں۔ان دنوں اس صوبے میں جنگ اور آپریشن بند ہوا ہے اور دشمن آرمی کے خلاف ایک بڑاحملہ کرنے کے لئے تیار ہورہا ہے۔ لیکن ہم ابھی تک مرکزی فورس کے منتظر ہیں۔ بیدار نے دہشتگردوں کا جنگ کیلئے آمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بےشک بدخشان میں ایک بڑی جنگ ہونے والی ہے۔ کیونکہ افغان آرمی اور عسکریت پسند دونوں جنگ کے لئے آمادہ ہورہے ہیں۔ ہمارا نیا آپریشن دہشتگردوں کے لشکرکشی کے ٹھکانوں پر ہوگا جس کا اطلاق بدخشان کے تمام علاقے میں ہوگا۔ اور ہم کابل سے آرمی کے آنے تک دہشگردوں کے حملوں کی جوابی کاروائی کی بھرپور طاقت رکھتے ہیں۔
واقعہ کا تجزیہ:
حال ہی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے بعض صوبے بدخشان، كنر، پكتیكا، غزنی، زابل، سرپل اورہلمند سے فراہ تک کالے جھنڈے لگائے گئے ہیں۔ اور کچھ افراد جو طالبان سے جدا ہوکر حکومت سے مل گئے تھےبہت ساری دلائل کی بنیاد پر داعش کے خفیہ گروپوں میں شامل ہوگئے ہیں۔یہ صورتحال نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ پریشانی کا باعث بھی ہے۔ اس سے پہلے افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جان کیمبل نے بھی اس کی تائید کی ہے کہ ہمارے پاس کچھ رپورٹس ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی دہشت گرد گروہ داعش کے ہینڈبل نشر ہوتے ہیں اور نئے لوگ غیر معمولی تنخواہیں ملنے کے وعدے کے ساتھ داعش کے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں۔
افغانستان کے اخبارات میں آیا ہے کہ داعش نے افغانستان کے کچھ صوبوں جیسے زابل، فراہ اور ہلمند میں اپنی کاروایاں ، یہاں تک کہ اپنی عسکری ٹرینگ کا آغاز کیا ہے۔اور یہ کہا جاتا کہ طالبان کے مختلف گروہوں کے کمانڈر ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس نیوزرپورٹ اور داعش کی طرف سے شائع کی گئے نقشے کے مطابق اس گروہ نے اپنے زیر تسلط علاقوں کو وسعت دینے کےلئے اپنی پانچ سالہ منصوبہ بندی کا اعلان کیا ہے۔اس منصوبہ کے مطابق ایران، افغانستان اور ادرگرد کے ممالک خراسان کے نام سے داعش کے زیر تسلط بیان کئے گئے ہیں ۔
ہمیشہ افغانستان کے اعلیٰ حکام اس نام نہاد اسلامی دہشت گرد گروپ داعش کے افغانستان میں سرگرمیوں کے خلاف بیانات دیتے تھے۔ لیکن عرب دہشت گردی کا رجحان ، افغان جو کہ القاعدہ کے وجود میں آنے کے دور میں بیان ہوا تھا اور عربوں نے افغانی روپ دھارلیااسی طرح داعش نے بھی ان سے سبق لیتے ہوئے افغانی روپ دھار لیا اور بعض طالبان رہنماؤں کا داعش کی حمایت پر تاکید کرنا وغیرہ یہ سب اس دہشت گردی کی تحریک کی حمایت کے لئے ماحول فراہم کررہے ہیں۔پچھلے سال سردیوں میں پہلی بار یہ بیان ہوا کہ سابقہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اس ملک کے علاقے اورکزی کے طالبان رہنما حافظ سعیدکے پاکستان اور افغانستان کے نئے داعش کے لیڈر بننے کے بارے میں خبر دی اور ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ سابق تحریک طالبان کے دسیوں عسکریت پسند داعش کی بیعت کررہے ہیں۔ اس ویڈیومیں جو ٹیوٹر اور مختلف سوشل میڈیا میں منتشر ہوئی ہےشاہد اللہ شاہد اور سابق تحریک طالبان پاکستان کے عسکریت پسندوں کو دکھایا گیا ہے جو گھوڑوں پر سوار دہشت گرد گروہ داعش کے جھنڈوں کو لہراتے ہوئے پہاڑی علاقوں سے گزر رہے ہیں۔
آج کل افغانستان میں داعش کا موضوع ، اس دہشت گرد گروہ کا باقاعدہ اعلان کرنا اور اسی دوران اس ملک میں دھماکے کرنے کی وجہ سے کچھ نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔ افغانستان کے مشرق میں جلال آباد شہر میں حال ہی میں ایک خودکش دھماکہ ہوا جس میں دسیوں لوگ مارے گئے۔طالبان نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جبکہ داعش نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی۔ افغانستان کے شہر جلال آباد میں داعش کا یہ پہلا حملہ تھا جس کی وجہ سے بچوں سمیت ۴۰ سے زائد افراد مارے گئے اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہوئے ۔گزشتہ چند ہفتوں کے دوران زابل سے ۳۱ افغان شہریوں کو اغواہ کیا گیا اور گزشتہ جمعہ کو تقریبا ۵ شیعوں کے سر قلم کئے گئے۔ صوبہ بدخشان کے علاقے جرم، یمگان، وردوج، کران و منجان اور ارغنجخواه میں داعش کے اثر و رسوخ کی دوسری مثال یہ ہے کہ سینکڑوں افراد کا مختلف اسٹیشنوں پر حملے کے نتیجے میں ۲۳ اور بعض روایات کے مطابق ۳۱ سیکورٹی فورسسز کے افراد مارے گئے اور کئی افراد زخمی اور حتی کہ کئی افراد لاپتہ ہوگئے ہیں، فوجی گاڑیاں اور ۴ ٹینک وغیرہ بھی داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگے ہیں۔ ان واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان ایک دفعہ پھر فرقہ ورانہ اور نسلی کشیدگیوں کے دہانے پر ہے۔
افغانستان کے دوسرے نائب صدر محمد محقق نے ان اقدامات کو داعش سے منسوب کیا ہےاور یہ پہلا بندہ تھا جس نے افغانستان میں دہشت گرد گروہ داعش کے اثر و رسوخ اور موجودگی کے بارے میں خبردار کیا اور یہاں تک کہ اس دہشت گرد گروہ کے خلاف طالبان سے اتحاد کرنے کے بارے میں گفتگو کی۔صدر اشرف غنی نے بھی اپنے امریکہ کے دورے میں افغانستان میں داعش کی موجودگی کے بارے میں اطلاع دی۔تاہم وزیر داخلہ نورالحق علومی سمیت بعض وزیروں نے یہ اعلان کیا کہ یہ اقدامات طالبان کے ہیں اور طالبان ہی اپنا رعب اور وحشت پھیلانے کے لئے سفید جھنڈے کی جگہ کالے جھنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بعض دوسرے وزراء نے بھی داعش کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس بات کی تاکید کی کہ بیرونی عوامل افغانستان میں نئے دہشت گرد گروہ کے ایجاد میں ملوث ہیں اور نئی حکومت بھی داعش کی موجودگی کے معاملے میں سہل انگاری سے کام لے رہی ہے۔
اس سے پہلے افغانستان کے اعلیٰ حکام داعش کی موجودگی کو رد کرتے تھے اور اس بات کی تاکید کرتے تھے کہ داعش کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔لیکن جلال آباد کے واقعہ کے بعد افغان صدر نے ملک میں انٹر نیشنل دہشت گرد گروہ داعش کی موجودگی کو قبول کیا۔بہت سے مبصرین نے طالبان کی ابتداء میں داعش کی خواہش کے باوجود یہ امید ظاہر کی کہ افغانستان میں یہ گروپ انٹرنیشنل دہشت گرد داعش کے مقابلے میں آئے گا۔کیونکہ طالبان نے جلال آباد کے واقعے کو وحشیانہ اور ناقابل قبول قرار دیا تھا۔بعض کا کہنا ہےکہ طالبان کے اہداف اور طریقہ کار جو کہ ملاعمر کے ساتھ وفادار ہیں داعش سے اختلاف رکھتے ہیں باوجود اس کے کہ ان میں سے بعض لوگ طالبان سے جدا ہوکر داعش کے ساتھ ملحق ہوچکے ہیں۔اس صورتحال میں افغانستان میں داعش کے پھلاؤ کا خطرہ بہت سنجیدہ ہے۔ داعش کے بارے میں ابھی تک جو تحقیقات کی گئی ہیں ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے اگرچہ داعش نےوسیع پیمانے پر دینی تعصب کی تشہیر کے ذریعے منصوبہ بندی کی ہے اور اس طریقے سے بعض تعصبی لوگوں کو اپنی طرف جذب کیاہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے اپنے آپ کو بڑا پیش کر کے اپنے نیٹ ورک کو پھیلاتے ہیں۔ ان تمام حربوں سے استفادہ افغانستان جیسے ملک میں داعش کے پھیلاؤ میں زیادہ مددکرسکتا ہے ۔