الوقت - شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ شام کا بحران، دہشت گردوں کے خلاف جنگ اور مذاکرات جیسے متوازی راستوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔
شام کے صدر بشار اسد نے روسی اور یورپی پارلیمنٹ کے وفود سے ملاقات میں کہا کہ جو کچھ شام میں ہو رہا ہے وہ روس اور چین جیسے بین الاقوامی قوانین کے حامی ممالک اور دہشت گرد گروہوں اور شام کے امور میں مداخلت کے حامی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے درمیان ایک جنگ ہے۔
شام کے صدر نے کہا کہ حکومت تمام گروہوں سے اس شرط پر مذاکرات کے لئے تیار ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں اور ملک کے آئین کا احترام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کی قومی آشتی کے عمل کو شامی عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور اس سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی گئی ہے۔
بشار اسد نے کہا کہ اگر شامی عوام کی حمایت نہ ہوتی تو حکومت اس راستے کو باقی نہیں رکھ سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپی حکام کو جو شامی عوام کے لئے فکر مند ہونے کا دعوی کرتے ہیں، دہشت گرد گروہوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے اور انہیں چاہئے کہ دہشت گردوں پر قابو پانے کے لئے ان ممالک پر بھی دباؤ ڈالیں جو دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی مدد کرتے ہیں۔
شام کے صدر بشار اسد نے کہا کہ اگر یورپی حکام ایسا کرتے ہیں تو یہ خود ان کے عوام کے حق میں بہتر ہوگا۔ روسی اور یورپی یونین کے وفد نے بھی اس ملاقات میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے لئے بین الاقوامی کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس پارلیمانی وفد نے اعلان کیا ہے کہ دہشت گردوں کا خطرہ یورپ تک پہنچنے کے احساس کے بعد شام کے بحران کے بارے میں یورپی ممالک کے نظریات میں تبدیلی ہو گئی ہے۔