الوقت - روس کی اسپوتنک خبر رساں ایجنسی نے بتایا ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نتن ياہو 9 مارچ کے اپنے ماسکو کے دورے کے دوران شام کی جنگ سے متعلق مسائل پر روسی صدر ولاديمير پوتين سے مذاکرات کریں گے۔
مشرقی حلب کے مضافاتی علاقوں اور رقہ کی جانب فوج کی پیشرفت کے پیش نظر اور ترکوں (دراصل اسرائیل) کے حمایت یافتہ مخالفین کی پیشرفت کے بند گلی میں پہنچنے سے شام کے حالات میں واحد کھلاڑی کی حیثیت سے روس شام کی فوج اور اس کے اتحادیوں (ایران، عراق اور حزب اللہ) سے براہ راست تصادم کے بغیر اسرائیل کی سیکورٹی کے خدشات کو برطرف کرنے کے لئے ضروری ضمانت دے سکتا ہے۔ ان سب کے باجوود یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ باتیں صحیح ہیں اور اسرائیل کے خدشات کو دور کرنے کے لئے پوتين کے ہاتھ کتنے کھلے ہیں؟
جولان کی پہاڑیاں اور اسرائیل کی سیکورٹی تشویش : نتن ياہو نے اپنے ماسکو دورے کے مقاصد کے بارے میں کہا کہ ایران، شامی فوج کی حمایت کرکے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے خلاف دہشت گردی کا دوسرا محاذ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جولان کی پہاڑیاں، شام کے جنوب مغربی صوبے قنیطرہ کا حصہ ہیں جو دمشق سے 70 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ ان پہاڑیوں کے ایک بڑے حصے پر اسرائیل نے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ اب اس علاقے پر دہشت گرد گروہ داعش سے وابستہ جیش الخالد نامی گروہ کا کنٹرول ہے۔ اسرائیلی جنگی طیارے انہی علاقوں سے کئی بار شام کی سرحد میں داخل ہوکراور شام کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ میں کامیاب رہے ہیں ۔ اس بات کے پیش نظر کہ شام میں نافذ جنگ بندی میں داعش کو شامل نہیں کیا گیا ہے اور جس علاقے پر اس گروہ کا کنٹرول ہے اس کو فوج نے چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور شام کی فوج کی پیشرفت اور اس علاقے پر اس کے کنٹرول سے اسرائیل بہت فکر مند ہے۔ اسرائیل کو امید ہے کہ وہ مقبوضہ جولان کی پہاڑیاں اور شام حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں کے درمیان مخالفین کی مدد سے بفر زون کو مضبوط کر لے گا۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جس کی ناکامی نتن ياہو بھی سمجھ گئے ہیں اور اسی سب چیزوں کے پیش نظر وہ ماسکو کا دورہ کر رہے ہیں۔
جنگ کے بعد شام کے بارے میں گفتگو : شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین کی بھرپور حمایت کرکے شام کے حالات میں اسرائیل اس وقت سب سے اہم کھلاڑی کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل کی سرحد سے لگے ملک کی سب سے مضبوط فوج بھی کمزور ہو گئی اور اس ملک کا ماضی کا بنیاد ڈھانچہ تقریبا تباہ ہو گیا ہے۔ موجودہ وقت میں شام امن مذاکرات جاری ہیں اور اسرائیل، مستقبل میں شام کے مکمل خطرے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ شام میں مذہبی بنیاد پر فیڈرل حکومت کی تشکیل ہو، یا مذہبی نقطہ نظر سے خود مختاری حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نتن ياہو کا کہنا ہے کہ ایران، شام میں اپنی زمینی اور سمندری موجودگی سے اس ملک میں ہمیشہ باقی رہنا چاہتا ہے۔ انہوں نے شام سے ایرانی فوج کے انخلاء پر زور دیا اور پوتين سے ملاقات میں اس بات پر زور دیں گے کہ شام کی جنگ کے خاتمے میں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ شام میں ایران کا کوئی بھی فوجی اور حزب اللہ کا کوئی بھی لڑاکا باقی نہ بچے ۔
حزب اللہ کو مسلح ہونے سے روكنا : لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ، علاقے میں اسرائیل سے جدوجہد میں سرفہرست اور سب سے بڑی تنظیم ہے جس نے شام میں اپنی مؤثر موجودگی سے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ اسرائیل اس بات سے فکر مند ہے کہ ایران اور شام، حزب اللہ کو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کا یہ بھی خیال ہے کہ روس کی جانب سے شام کی ہر طرح کی فوجی امداد سے حزب اللہ روسی ہتھیاروں سے مسلح ہو رہی ہے اور اسرائیل کے خلاف جنگ میں ان ہتھیاروں کا ممکنہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال نتن ياہو کے دورہ ماسکو کی وجوہات میں سے ایک شام کی موجودہ صورت حال سے اسرائیل کی تشویش اور ناراضگی ہے جس نے نتن ياہو کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ شام کی بدامنی کے تندور پر روٹی سینکنے والے نتن ياہو کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ اب آرام و سیکون کے دن ختم ہو رہے ہیں۔