الوقت - یمن کی فوج نے اتوار کو ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ریاض سے 40 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع المزاحمیہ فوجی چھاونی کو ایک پیشرفتہ بیلسٹک میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ برکان-2 نامی میزائل 800 سے زیادہ کیلومیٹر کے فاصلے پر اپنے ہدف کو سٹیک نشانہ بنا سکتی ہے اور اس تخریبی توانائی برکان-1 سے زیادہ ہے۔ یعنی یہ میزائل برکان-1 میزائل سے زیادہ تباہی مچا سکتی ہے۔ سعودی عرب نے 26 مارچ 2015 کو جب یمن پر حملے کا آغاز کیا تھا تو اس نے شروعات میں ہی دعوی کیا تھا کہ اس نے یمن کے میزائل کے ایک حصے اور فوجی طاقت کو تباہ کر دیا ہے۔
یمن کے انقلابیوں نے اس سے پہلے بھی ملک کی سرحدوں کے باہر بھی راکٹ اور توپخانوں سے سعودی عرب کے سرحدی علاقوں اور سرحدی علاقوں میں بنی چھاونیوں پر حملے کئے تھے لیکن یمن کے خلاف سعودی عرب کے فضائی حملوں کے شروع ہونے سے متعدد بار میزائل سے سعودی عرب کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ اکتوبر میں بھی یمن کی فوج اور رضاکار فورس نے سعودی عرب کے حملوں کے جواب میں سعودی عرب کی سرزمین کے اندر ایک بیلسٹک میزائل سے حملہ تھا۔ جون 2016 میں بھی یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ نے سعودی عرب ایک فوجی مرکز پر اسکڈ میزائلے سے حملہ کیا تھا جو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لئے وارننگ تصور کیا جاتا تھا۔ تحریک انصار اللہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر یمن کے خلاف سعودی عرب کے حملے جاری رہے تو وہ اپنی میزائل توانائی اور تمام آپشن کا مظاہرہ کرے گی۔
در حقیقت یمن کی فوج اور عوامی تحریک نے اپنی نئی کاروائیوں سے میدان جنگ کے حالات بدل کر رکھ دیئے۔ یمن کی عوام تحریک اور فوج نے نئے میزائل حملے سے سعودی عرب اور اس کے نام نہاد اتحاد میں شامل ممالک کو دو پیغام دیئے ہیں۔
1 – پہلا پیغام یہ ہے کہ سعودی عرب کے حکام کے تصور کے برخلاف یمن کی فوج، تحریک انصار اللہ اور عوامی تحریک میں ملک کی سرزمین کے دفاع کا جذبہ پایا جاتا ہے اور طویل فاصلے کے بیلسٹک میزائلوں اور اپنی طاقت پر اعتماد کرتے ہوئے پوری طاقت سے ملک کا دفاع کریں گے۔ یمن کی عوامی تحریک نے یہ پیغام دیا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ پہلا حملہ ناکام ہو گیا تو دوسرا حملہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے مزید خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ یمن کی فوج اور تحریک انصار اللہ کی طاقت نے سعودی عرب کے تمام اندازوں کو درہم برہم کر دیا۔ اسی تناظر میں یمن کی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ریاض اب ہمارے میزائلوں کی رینج میں ہے یا ریاض ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہے اور یمن کے طولانی محاصرے اور یمن کی میزائل توانائی کو تباہ کرنے کے بارے میں سعودی جارح کے دعوؤں کے برخلاف، یمنی فوج کی میزائل یونٹ پہلے سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے فوجی ہوائی اڈے ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہیں اور یہ سعودی عرب کے وحشی اور بزدلانہ حملوں کا جواب ہے۔
2 – دوسرا پیغام یمنی مزاحمت کاروں کی جانب سے میزائلوں کی رونمائی، سعودی حکام کے لئے ایک سگنل ہے جو حالات کو بدل کر سعودی عرب کے مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے مجبور کر دے گا۔ در اصل یمنیوں کی جانب سے ہی مذاکرات میں دلچسپی ہی مذاکرات کے دورازے کھولنے کے لئے سعودی عرب کے اندازوں میں مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے دباؤ کے ذریعے ہی ماحول تبدیل کئے جانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں سعودی عرب اپنے حملے کم کرکے مذاکرات کی میز پر آ جائے۔
میزائل فائر کرکے یمنیوں نے متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی یمنی فوج کے نشانے پر ہیں کیونکہ یمن کے خلاف سعودی عرب کے نام نہاد اتحاد میں یہ ممالک بھی شامل ہیں۔ یمنی کی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ جلد کی 1200 کیلومیٹر تک حملہ کرنے والے میزائلوں کو فائر کرنے والے ہیں۔