الوقت - امریکا کے در ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سنیچر کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتین سے ٹیلیفونی گفتگو کی۔ اس گفتگو میں ٹرمپ نے ماسکو کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات میں بہتر کے موقف کا اعادہ کیا اور روس کے خلاف مغرب کی پابندیوں تک کو ہٹانے کی بات تک کہہ دی۔ ماسکو کے خلاف مغرب کی پابندیاں یوکرین کے تنازع کے دوران عائد کئے گئے تھے۔ یہ موضوع دنیا کے ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں رہا۔
دونوں جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، پوتین اور ٹرمپ نے شام میں داعش کے خلاف تعاون اور اسی طرح دو طرفہ تعلقات میں بہتری پر اتفاق کیا۔ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کے زمانے میں روس اور امریکا کے تعلقات کشیدہ تھے۔ اس طرح سے دونوں ممالک یوکرین کے بحران کے دوران پہلی بار سرد جنگ کے بعد ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور اس کا نتیجہ مشرقی یورپ میں فوجی مشقوں کا انعقاد، روس کی مغربی سرحدوں پر مغربی کی فوجی توانائي میں اضافے اور ماسکو کے خلاف فوجی اور اقتصادی پابندیوں کی منظوری کے طور پر برآمد ہوا۔ اسی طرح دونوں فریق کے درمیان شام کے تعلق سے بھی شدید اختلافات پائے جاتے تھے، یہاں تک کہ دہشت گردی سے جنگ دونوں ممالک کے درمیان مشرق وسطی میں نیابتی رقابت میں تبدیل ہوگئی۔
ان تمام اختلافات اور کشیدگی کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخاباتی مہم کے دوران روس کے ساتھ تمام کشیدگی کم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ اس موضوع نے امریکا کے کچھ سیاست دانوں میں تشویش پیدا کردیا۔ اسی کے ساتھ جزیرہ نما کریمیا پر روس کے قبضے کو باضابطہ قبول کرنے اور ماسکو کے خلاف امریکا کی پابندیوں کے ختم کرنے کے امکانات کے بارے میں ٹرمپ کے بیانات نے مغرب کی حساسیت کو بھڑکا دیا تھا لیکن اس موقف کا روس کی جانب سے استقبال کیا گیا۔ خاص طور پر یہ کہ امریکا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا مسئلہ روس میں ہونے والے انتخابات میں پوتین کے پھر سے کامیاب ہونے کا سبب بن جائے۔
ان سب کے باوجود ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اس عمل کا مثبت نتیجہ برآمد ہوگا کیونکہ واشنگٹن اور ماسکو دنیا کی دو بڑی طاقت کی حیثیت سے کم از کم 45 برسوں سے ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں اور اس مدت میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد وسیع پیمانے پر آپس میں ٹکرائے اور اس کے اثرات آج بھی ہم امریکا اور روس کے تعلقات میں واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔
مذکورہ عمل حالیہ عشروں کے دوران، روس کی قدیمی طاقت کے احیاء کے لئے پوتین کی کوششوں کے مد نظر زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ اسی تناظر میں اگر چہ عراق اور افغانستان پر امریکا کا حملہ اور ان ممالک میں اپنے فوجیوں کی تعیناتی پر ماسکو کا کوئی خاص رد عمل نہیں تھا لیکن اکیسویں صدی کی دوسرے عشرے میں روس کی حکمت عملی پوری طرح تبدیل ہو چکی تھی۔ یہ مسئلہ 2008 میں ابخازیہ کی جھڑپوں میں سامنے آگیا۔ اس سال روس نے جارجیا کے فوجیوں کو ایسی حالت میں پسپائی پر مجبور کر دیا کہ مغرب صرف تماشائی بنا رہا۔ اسی تناظر میں یوکرین کی تبدیلیوں میں پوتین پوری طاقت سے کود پڑے۔
ابھی یوکرین کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ کرملین ہاوس نے مشرق وسطی میں اپنے اثر و رسوخ دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کی وجہ سے اس علاقے میں روس کے اثر و رسوخ کم ہوگئے لیکن پوتین نے مشرق وسطی میں اپنی طاقت بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ براہ راست بحران شام میں داخل ہوگئے۔