الوقت - سعودي عرب كے باني ملك عبدالعزيز آل سعود كي وصيت كے مطابق ’’ تمہاري عزت يمن كي رسوائي ميں ہے اور تمہاري رسوائي يمن كي عزت ميں ہے‘‘۔ سعودي عرب ہميشہ سے اس فكر ميں رہا ہے كہ يمن كا ملك اور حكومت ہميشہ كمزور رہيں۔
ممكن ہے يمن كے وجود كا مضبوط اور متحد ہونا سعودي خاندان كي بنيادي مشكلات ميں سے ايك ہو۔ كيونكہ يمن جزيرہ عرب ميں آبادي كے لحاظ سے ايك بہت بڑا ملك ہے۔ اس ليے كہ دو كروڑ چار لاكھ افراد وہاں پر مقيم ہيں۔ اور ان ميں سے اكثر مسلح ہيں اور غربت ميں مبتلاء ہيں۔
ابھي جبكہ وقت كے گزرنے كے ساتھ ساتھ رياض نے ترقي كي ہے اور يمن كے بعض قبائل ميں اپنا اثر رسوخ بڑھاديا ہے۔ تاكہ مركزي حكومت ميں ايك بھاري پلڑے كي حيثيت سے موثر واقع ہوسكے۔
گزشتہ سالوں كے دوران جب بھي يمن نے چاہا كہ وہ خود مختاري كي طرف قدم بڑھائے تو سعودي عرب اس اقدام ميں ركاوٹ بنا ہے اور خليج فارس كے ممالك پر دباؤ ڈالا ہے كہ وہ اس ملك كو امداد نہ ديں۔ اسي طرح ايك ميلين سے زيادہ يمني شہريوں كو جو سعودي عرب ميں مقيم تھے ان كو اپنے ملك سے باہر نكال ديا ہے۔
نئي صورت حال كے مطابق سعودي عرب كي يمن كے مستقبل پر گرفت ڈھيلي ہوگئي ہے البتہ يہ مسئلہ علي عبداللہ صالح كا انصاراللہ كے ساتھ اتحاد اور جنرل علي محسن الاحمر كے سعودي عرب كي طرف فرار ہونے سے شروع ہوا۔ اب سعودي عرب كودريائے احمر اور آبنآۓ المندب كے علاقے ميں انصار اللہ كا سامنا كرنا پڑے گا جوايراني اثر و رسوخ كا حامل گروہ ہے۔ ان حالات ميں سعودي عرب پريشان اور مضطرب نگاہوں سے انصار اللہ كو ديكھتا ہے۔ كيونكہ وہ جانتا ہے كہ يہ جماعت يمن اور خطے كے اندر فورسسز كے توازن كے عنوان سے مضبوط كردار ادا كرسكتي ہے۔ اور سياسي سرگرميوں كے انعقاد، سياسي خودمختاري اور يمن كے اندر بيروني مداخلت كو كم كرنے كي صلاحيت ركھتي ہے اور اسي طرح وہ امريكہ كے خلاف بھي ہے ۔ انصاراللہ اسلامي جمہوري ايران كے زير اثر ہے جس كا شمار سعودي عرب كے روايتي دشمن ميں ہوتا ہے۔
دوسري طرف سعودي عرب كےلئے ممكن نہيں ہے كہ وہ دہشتگرد گروپوں جو سالھا سال سے ان كي حمايت ميں تھے ان كو اپنے ہمسايہ ممالك پر دباؤ ڈالنے كے لئے استعمال كرے۔ خصوصاً آج كل يہ گروہ سعودي عرب كے تسلط سے نكل چكے ہيں، حتي اب ان كي پہچان اس ملك كے دشمنوں كے عنوان سے ہوتي ہے۔جيسا كہ داعش واضح طور پر سعودي عرب كو دھمكي ديتا ہے۔ حتي كہ اس نے اپني بعض كارواياں عراق اور سعودي عرب كي سرحد پر كي ہيں اور كافي تعداد ميں سعودي باشندوں كو قتل كياہے۔ حتي كہ حال ہي ميں اس گروہ نے مكہ اور مدينہ كےلئے بھي اپنا امير مقرر كيا ہے۔ اسي طرح يمن ميں ديكھتے ہيں كہ القاعدہ نے داعش كي بيعت كي ہے اور اخوان المسلمين بھي سعودي عرب كي پناہ گاہ كے طور پر مقرر ہوا ہے۔
يمن ميں سعودي عرب اور اخوان المسلمين كے رابطے كے مضمرات
سعودي عرب اخوان المسلمين كا روايتي دشمن ہونے كے باوجود خصوصا مصر ميں ان كے حكومت ميں پہنچنے كے زمانے سے رياض يمن كي اصلاح پارٹي كے ساتھ رابطے كے لئے كوئي خاص دلچسپي نہيں ليتا تھا (جوكہ اہل احمر كي قيادت ميں تھي) ليكن يمن كي موجودہ صورت حال ميں اس بات كي ضرورت ہے كہ حتي اس پارٹي كي مدد كي جائے تاكہ ايك دوسرے كي مدد سے انصاراللہ كو شكست دي جاسكے اور اگر رياض اس نتيجے تك پہنچ گيا تو وہ حتماً خليج فارس تعاون كونسل ، امريكہ اور ديگر مغربي ممالك كے ساتھ معاہدہ كے ذريعے يہ قدم اٹھائے گا۔
سعودي عرب كے وزير امور خارجہ سعو دالفيصل نے بھي اخوان المسلمين كے ساتھ رابطے كےلئے سعودي عرب كي نئي سياسي حكمت عملي كے بارے ميں گفتگو كرتے ہوئے كہا ہے: ’’اخوان المسلمين كے ساتھ ہمارا كوئي اختلاف نہيں ہے ہمارا اختلاف ان كے چند افراد كے ساتھ ہے جنہوں نے اپنے مرشد اور رہبر كي بيعت كي ہے‘‘۔ البتہ سعودي عرب اور اخوان المسلمين يمن كے درميان رابطے ميں بہت زيادہ خطرات بھي پائے جاتے ہيں كيونكہ ان دونوں كي تاريخ اور فكر ايك جيسي نہيں ہے۔ يمن كي اصلاح پارٹي كو چاہيے كہ سعودي عرب اور يمن كے تعلقات كي تاريخ اور سعودي حكام كي رائے كو فراموش نہ كريں ۔ اور اب تك يمنيوں اور سعوديوں كے درميان ہونے والے مذاكرات اور گفتگو كي مشكلات اور تكاليف كا پتہ ہونا چاہيے۔ كيونكہ يہ سبب بنا ہے كہ يمن بيروني ممالك كے ساتھ وابستہ ہوجائے۔ خصوصا انصار اللہ نے تمام يمني جماعتوں كو مذاكرات كي دعوت دي اور كسي بھي جماعت كو مستثني قرار نہيں ديا۔ اسي طرح انہہيں چاہيے كہ يمن كے بارے ميں سعودي عرب كي ہرقسم كي پلانگ جو يمن كو تقسيم كرنے اور شام كي تاريخ كو يمن ميں دہرانے كا باعث بنے اس سے ، اجتناب كريں۔ كيونكہ اس صورت ميں ايك خوني اور دردناك قسمت ان كے انتظار ميں ہوگي۔اور دوسري طرف سعودي عرب كي غلطي يہ ہے كہ وہ يہ سوچتا ہے كہ انصاراللہ پر دباؤ ڈالنا اس ملك كے مفاد ميں ہے جبكہ انصاراللہ كو يمن كے لوگوں كي ايك بڑي تعداد كي حمايت حاصل ہےاو ر وہ خليجي ممالك ميں داعش اور القاعدہ كے نفوز كےلئے ركاوٹ ثابت ہوگا۔ يمن ميں ہر قسم كا تشدد اور افراتفري اس بات كا سبب بنے گي كہ اس ملك كا جنوب بھي متاثر ہوجائے اور يہ صورت حال سعودي عرب كےلئے بھي نقصان كا باعث بنے گي۔