الوقت - اسرائیل کے ایک تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ صیہونی وزیر اعظم امریکا کی نئی حکومت کے زمانے میں عرب رہنماؤں بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں گے، چاہے اس کے لئے ان کو اپنے کابینہ کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔
اسرائیلی مبصر آریئيل کھانا نے اسرائیلی اخبار معاريو میں اپنے مقالے میں لکھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم، ٹرمپ کے دور میں عرب ممالک کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نتن ياہو پوری خاموشی اور خفیہ طریقے سے اپنے اگلے سیاسی منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ سیاسی سفر، ٹرمپ کی اگلی حکومت اور ان کے کابینہ کے اعلی حکام کی نگرانی میں اور سعودی عرب کی مدد سے آگے بڑھے گا۔
اسرائیلی مبصر آريئیل کھانا لکھتے ہیں کہ جیسا کہ واضح ہے کہ ابھی حال ہی میں نتن یاہو نے کچھ معاملات میں اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے مشترکہ نظریات کے بارے میں بیان دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے اقتدار کے زمانے کے ابتدائی برسوں میں تل ابیب کے لئے یہ بہت بڑا خطرہ ہوگا کہ امریکا اور عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے تعلقات میں بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جائے۔
کھانا نے دعوی کیا کہ نتن ياہو فلسطینیوں کے ساتھ تعلقات میں توسیع کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ نتن ياہو اپنی دائیں بازو کی کابینہ کے باوجود دونوں فریق میں اختلافات کو ختم کرنے اور جھڑپوں کو ختم کرنے کے لئے ایک مستقل حل کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نتن یاہو کا خیال ہے کہ جھڑپوں کو کنٹرول کرنے کی پالیسی کی جس کی وہ اب تک حمایت کرتے رہے ہیں، اہمیت ختم ہو گئي ہے اور اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ملک کی تشکیل جو غزہ پٹی اور دریائے اردن کے مغربی کنارے میں رہنے والے زیادہ تر فلسطینیوں کا ملک ہو گا، اس تاریخی ساز باز میں مدد کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کا خیال ہے کہ فلسطین ملک کو اسرائیل سے چھوٹا ہونا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلا شبہ فلسطینی اس منصوبے کو مسترد کر دیں گے اور اس طرح عرب ممالک کی جانب سے اس منصوبے کی حمایت میں مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن فلسطین کے کچھ گروہ بھی یہ سمجھ چکے ہیں کہ اس صورتحال کو جاری رکھنا مشکل ہے کیونکہ فلسطین کا اقتصادی انتظام درہم برہم ہوگیا ہے اور فلسطینی لیڈر بھی نہیں چاہیں گے کہ فلسطین کی سماجی ساخت داخلی تکلیف سے ٹوٹ جائے۔