الوقت - یمن پر سعودی عرب کے وسیع حملوں کو تقریبا دو سال کا عرصہ ہو رہا ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جس کے بارے میں سعودی عرب کی وزارت دفاع کو امید تھی کہ ایک مہینے کے اندر اس کو اپنے مفاد میں ختم کر دے گا لیکن تحریک انصار اللہ کی مزاحمت اور اس گروہ میں عوام رضاکاروں کے شامل ہونے سے حالات ہی بدل گئے۔ در ایں اثنا سعودی عرب نے رواں سال کے شروع میں جسے یمن کی جنگ میں روزانہ 20 کروڑ ڈالر کے اخراجات کے سبب 81 ارب ڈالے کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا، علاقائی ممالک اور امریکا کی مداخلت سے انصار اللہ کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سعودی حکام نے مذاکرات اور جنگ بندی کے لئے وہی پہلے والے معاہدے پر اصرار کیا جس کی وجہ سے جنگ بندی ناکام ہوگئی۔
ان سب کے باوجود ایک طرف سعودی عرب کے فضائی حملے میں عام شہریوں اور بچوں کے قتل عام کی وجہ سے اس جنگ میں براہ راست اقوام متحدہ نے مداخلت کی اور دوسری طرف کویت نے علاقے میں مؤثر کردار ادا کرنے کی کوشش کے تحت یمن امن مذاکرات کی میزبانی پر اپنی آمادگی کا اعلان کیا لیکن یہ مذاکرات میں جنگ بندی کے نفاذ کے لئے انصار اللہ کی پیشگی شرط کے نفاذ نہ کرنے اور مذاکرات سے سعودی عرب کے نکل جانے کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔
یمن امن مذاکرات سے ریاض کے وفد کا نکلنا ایسی حالت میں ہوا کہ یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ايلچی اسماعیل ولد الشیخ نے مذاکرات کو کامیابی کے دھانے تک پہنچانے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی لیکن کویت مذاکرات سے سعودی عرب کے وفد کے نکلنے کی وجہ سے انصار اللہ اور نیشنل کانگریس کے درمیان یمن کی اعلی سیاسی کونسل کی تشکیل کے لئے سیاسی مفاہمت ہوگی۔ سعودی عرب نے ہمیشہ سے یمن کی سیاسی جماعتوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے کی کوشش کی ہے اور اس نے جب یہ دیکھا کہ انصار اللہ اور نیشنل کانگریس کے درمیان ہونے والی مفاہمت بعد یمن میں وہ اپنے اہداف کو حاصل نہیں کر پائے گا اور اس نے ان اہداف کے حصول کے لئے جو سرمایہ کاری کی اس پر پانی پھر گیا تو اس نے یمن میں جنگ کے ذریعے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان سب سے باوجود آج تک یمن میں جد و جہد بغیر کسی معین نتیجے کے جاری ہے۔ تحریک انصار اللہ اور اس ملک کی رضاکار فورس ایسی حالت میں سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کے شدید فضائی حملوں کے مقابلے میں استقامت اور پائمردی کا مظاہر کر رہی ہے کہ سعودی عرب اپنے پٹھو منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں پہنچانے کی جانب سے پوری طرح سے مایوس ہو گیا ہے۔
اس بنیاد پر سعودی حکام نے حال ہی میں انصار اللہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے نیا حربہ آزمانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کوشش کی کہ یمن کو بین الاقوامی مسئلہ بنا کر اور امریکا، برطانیہ اور اردن سمیت کچھ علاقائی عرب ممالک کے نمائندوں کو یمن کے مسئلے میں داخل کرکے یمن میں عوام مزاحمت کے لئے وسیع پیمانے پر سیاسی اور تبلیغاتی پروپیگینڈے شروع کریں۔ ان سب سے باوجود سعودی عرب، منصور ہادی کو اقتدار سے ہٹانے اور وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے ان کے معاون کے انتخاب کی اقوام متحدہ کی تجویز کا مخالف ہے۔
یمن کے مسئلے میں بڑی طاقتوں کے شامل ہونے سے کچھ زیادہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ اس مسئلہ کی پیچیدگی، سیکورٹی کونسل کی قراردادوں اور اجلاسوں سے کہیں زیادہ ہے اور خاص طور پر یمنی عوام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر طرح کے تسلط اور غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کا مقابلہ کریں گے اور پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔