الوقت - دہشت گردوں کی جانب سے حلب پر قبضے کے 53 مہینے کے بعد ہزاروں شہیدوں کا نذرانہ پیش کرکے حلب کو آزاد کرایا گیا ہے۔ تکفیری دہشت گردوں اور بین الاقوامی ایجنٹوں کی کمر جہنوں نے موت کا بازار گرم کر رکھا تھا، مزاحمت کی حملوں سے ٹوٹ گئی اور وہ حلب سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔ شامی فوج کی یہ عظیم کامیابی اور دہشت گرد گروہوں کی پسپائی کے متعدد اثرات و نتائج ہیں جن پر ہم بـحث کرنے جا رہے ہیں :
1 - حلب کی آزادی سے مسلح دہشت گردوں کی جانب سے شام میں موازی حکومت کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور ایسے نظام کے قیام کا خواب ٹوٹ گیا جس کا مقصد حلب جیسے سیاسی، فوجی، جغرافیائی اور آبادی کے لحاظ سے زیر کنٹرول علاقوں میں قائم کرنا تھا۔ شام کے گزشتہ دو برسوں کی صورتحال کے تناظر میں علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں جو منصوبہ بنا رہی تھی یعنی شام کی تقسیم کا منصوبہ، اس پر پوری طرح پانی پھر گیا۔ اگرچہ یہ فریق اپنے اہداف کا اعلان کریں یا نہ کریں اوراس کو مخفی رکھیں پھر بھی حلب شہر کو مسلح افراد کے ہاتھوں میں باقی رکھنے کے فیصلے سے ہی یہ پتا چل جاتا ہے کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا تھا۔
2 - تقسیم کے آپشن کے ساتھ حلب شہر کو اپنے ہاتھوں میں باقی رکھنا، مخالفین کا سیاسی حربہ تھا تاکہ سیاسی مذاکرات کے وقت ضرورت پڑنے پر اس کا استعمال کر سکیں کیونکہ یہ چیز ان کے نزدیک سیاسی راہ حل کے نام سے مشہور تھی۔ اب حلب کی آزادی سے ان کے ہاتھ سے یہ اہم سیاسی حربہ نکل گیا ہے۔
3- بے شک بحران شام میں خلیج فارس کے عرب ممالک کی سرگرمیاں اور اثرات، حلب کی وسیع مہم سے پہلے ہی کم ہوگئے تھے اور صرف شام کی حکومت کے خلاف پروپیگینڈے اور رای عامہ کو ورغلانے کے لئے میڈیا کے سہارے کے سہارے تک محدود ہوگئے تھے لیکن حلب کی آزادی نے ترکی کے اثر و رسوخ کو بھی محدود کر دیا تھا۔
4- حلب پر فوج کے قبضہ سے سب سے بڑا دھچکا دہشت گرد گروہ داعش کو لگا۔ حالیہ دنوں میں داعش کو لگنے والی کاری ضرب کے علاوہ یہ شکست بھی ان کے لئے قابل ہضم نہیں تھی۔ اس کاری ضرب کے سبب، مداخلت پسند فریق کے مطابق شمالی شام کے محاذ پر داعش کی طاقت محدود ہوگئی۔ داعش نے شام میں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو حاصل کرنے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے تاریخی شہر تدمر پر حملہ کر دیا۔ تدمر پر داعش کے حملے اتفاق کا نام دیا جا رہا ہے لیکن یہ پوری ایک منظم اور سوچی سمجھی کاروائی تھی۔
5- اسٹرٹیجی لحاظ سے حلب پر شامی فوج کا قبضہ بحران شام میں بہت بڑی تبدیلی تصور کی جا رہی ہے۔ حلب پر آزادی سے پہلے تک امریکا ہمیشہ سے شام میں براہ راست فوج مداخلت، ڈرانے اور دھماکے کی پالیسی پر عمل پیرا تھا لیکن حلب کی آزادی کے بعد وہ اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گیا۔
6- حلب کی آزادی اور غیر ملکی دشمنوں کے مواقف جنہوں نے صرف آہ و زاری اور نالہ و فغاں پر ہی اکتفا کیا، سے پتا چلتا ہے کہ شام کی حکومت اور اس کے اتحادی پہلے سے زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہیں اور اب مخالفین کی کوئی بھی تجویز ان پر کارآمد ثابت نہیں ہو سکتی۔ اب سب کو پتا چل گیا ہے شام کی حکومت اب گزشتہ دو سال کی پوزیشن میں نہیں ہے اور وہ اب اپنے مخالفین کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر مذاکرات کر سکتی ہے۔
7- اس بات کی جانب بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شام کی فوج اور اس کے اتحادیوں کا یہ اعلان کہ وہ حلب کی آزادی کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنے فیصلے پر عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف طاقت اور توانائی کے زور پر ہی حالات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لئے مضبوط ارادوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔