الوقت - قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے علاقے کے موجودہ حقائق کے بارے میں بیانات اور مواقف کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر رہبر انقلاب اسلامی کی پیشگی شرطوں نے عملی جامہ پہن لیا تو آئندہ 20 برسوں میں اسرائیل نیست و نابود ہو جائے گا۔
غاصب صیہونی حکومت سے جد جہد، 2013،2014 اور 2015 میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات میں مشترک اور اہم موضوع رہا ہے۔ یعنی قائد انقلاب اسلامی نے 2013 سے مسلسل سبھی بیانات اور خطابات میں صیہونی حکومت سے جد جہد پر تاکید کی ہے۔ 2013 میں دنیا نے حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک پر قائد انقلاب اسلامی کا تاریخی خطاب سماعت فرمایا جس میں آپ نے تاکید کی تھی کہ اگر اسرائیلی حکام سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تو اسلامی جمہوریہ ایران تل اوبیب اور حیفا کو خاک میں ملا دے گا۔
قوم، صیہونیوں سے جد جہد کی عاشق ہے، یہ تاریخی خطاب 2013 کا ہے۔ 2014 میں قائد انقلاب اسلامی کا سب سے اہم خطاب وہ تھا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اگلے 25 سال میں اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا۔
ابھی حال ہی میں فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سربراہ سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر اس موضوع پر روشنی ڈالی کہ آئندہ 25 برسوں میں اسرائیل نیست و نابود ہو جائے گا۔ اس ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ صیہونی حکومت جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ تمام افراد اور متحد مسلمانوں اور فلسطینیوں سے جد و جہد کی شرط کے ساتھ اگلے 25 برس میں صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائے گی۔
در ایں اثنا قائد انقلاب اسلامی کے اس بیان پر کہ اسرائیل اگلے 25 برسوں میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا، تین طرح کے نظریات پائے جاتے ہیں :
1- پہلے گروہ کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک سلوگن اور میدان جنگ کی ایک رجز خوانی ہے۔ ان افراد کا کہنا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جو 25 سال لفظ کا استعمال کیا ہے وہ صیہونی حکام کے بے بنیاد دعوؤں کے جواب میں ہے میں انہوں کہا تھا کہ ایٹمی مذاکرات نے ہم 25 سال کے لئے ایران کی جانب سے مطمئن کر دیا ہے۔
اس گروہ کا یہ خیال ہے کہ اگر صیہونی حکام 25 سال کے بجائے 20 یا 30 سال کا استعمال کرتے تو قائد انقلاب اسلامی بھی صیہونی حکومت کی نابودی میں اسی عدد کا استعمال کرتے۔
2- دوسرے گروہ کا یہ خیال ہے اس سلوگن میں ایک عمیق حکمت عملی پوشیدہ ہے اور قائد انقلاب اسلامی نے اسی حکمت عملی کے مد نظر یہ اعلان کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس گروہ کے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ سیاسی پیشنگوئی، صیہونی حکومت کے ساتھ ایران کے علی الاعلان جد جہد کا وسیع ثمرہ ہے اور در اصل یہ موضوع نیا نہیں ہے۔
3- اس گروہ کا خیال ہے کہ ابتداء میں تو یہ موضوع صرف میدان جنگ میں رجز خوانی کے زمر تک ہی تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ ٹھوس ہدف میں تبدیل ہو گیا۔ اس گروہ کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر صیہونی حکام 15 یا 30 سال کے عدد کا استعمال کرتے، رہبر انقلاب اسلامی بھی وہی عدد استعمال کرتے لیکن دھیرے دھیرے یہ سلوگن، یقینی اور ٹھوس ہدف میں تبدیل ہو گیا کہ کچھ انقلابیوں نے معاشرے میں یہ رائج کر دیا کہ اسرائیل در حقیقیت 25 سال بعد نیست و نابود ہو جائے گا۔