الوقت - گزشتہ تین برس کے دوران، مسلح دہشت گردوں کے قبضے سے حلب کی آزادی، مزاحمتی فوج کی ہمیشہ سے ترجیحات میں شامل رہی ہے اور اسی تناظر میں شام کی حکومت اور مزاحمتی گروہوں نے حلب کی آزادی کے لئے متعدد منصوبوں پر عمل کیا اور آخرکار انہوں نے ایک چھوٹی فوجی حکمت عملی کے ذریعے بہت کم وقت میں دہشت گردوں کے قبضے سے حلب کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اس موضوع کی اہمیت اس وقت نظر آتی ہے جب کچھ تجزیہ نگاروں اور دفاعی امور کے ماہرین نے دہشت گردوں کے قبضے سے حلب کی آزادی کو شام کی آزادی کا راز قرار دیا تھا اور اس طرح سے بحران شام میں جنگ کے میدان میں اور سیاست میں ایک عظیم تبدیلی رونما ہوگی۔
اس بات کے مد نظر کہ حلب کی آزادی کو شام کی آزادی کا مقدمہ قرار دیا گیا ہے اور یقینا اس شہر کی مکمل آزادی سے داعش اور نصرہ فرنٹ کی کامیابی کی امید پر پانی پھر جائے گا۔ اسی کے ساتھ دنیا کا کوئی بھی ملک بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کا خواب نہیں دیکھے گا۔ حلب کی آزادی، دہشت گرد گروہوں کے حوصلے پست کر دے گی اور پورے شام کی آزادی کا عمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔ البتہ حلب کی آزادی کے بعد اس کی حفاظت کے لئے بھی سیکورٹی، فوج اور اقتصادی لحاظ سے زیادہ خرچ کی ضرورت ہوگی اور اس کی حفاظت بہت ہی فیصلہ کن ہوگی۔
حلب کی آزادی کے نتائج کو تین نکات میں بیان میں کیا سکتا ہے :
داخلی سطح پر، حلب کی آزادی، شام کی قوم کے لئے دوسرے علاقوں میں دہشت گردوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے عظیم کامیابی ہوگی اور اسی لئے ادلب، درعا، دیرالزور اور قنیطرہ کی آزادی میں حکومت کی مدد کرنے میں عوام کی دلچسپی میں اضافہ ہوگا اور اس کے مقابلے میں دہشت گردوں کی صفوں میں جوانوں کے شامل ہونے کے امکانات بھی کم ہوں گے۔ اس کے علاوہ چونکہ دہشت گردوں کی فتح کے امکانات کم ہوگئے ہیں اسی لئے دہشت گردوں کی غیر ملکی مدد میں بھی کمی واقع ہوگی۔
علاقائی سطح پر بھی حلب کی آزادی ترکی کے لئے حالات سخت کر دے گی۔ چونکہ شام کی فوج حلب کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئی اسی طرح ترکی کی جانب سے قبضہ کئے گئے علاقوں کو بھی جلد کی آزاد کرا لے گی۔ اگر چہ اردوغان کا پہلا ہدف، پہلی عالمی جنگ کے سمجھوتے اور لوزان سمجھوتے کی بنیاد پر اپنے تاریخی دعوے کو نتیجہ خیز بنانا رہا ہے لیکن حلب کی آزادی نے ترکی کی توسیع پسندی پر پانی پھیر دیا ہے اور اسی لئے اردوغان مجبور ہیں کہ وہ اپنے ابتدائی ہدف پر نظر ثانی کریں۔
دوسری جانب حلب کی آزادی سے سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور قطر کی علاقائی پالیسی پر اعتماد ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ ان ممالک نے پیسے تو بہت خرچ کئے لیکن ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی امریکا کی سربراہی میں مغرب کے مواقف کو شدید دھچکا لگا اور اس کے مقابلے میں حلب میں فوج کامیابی کے ایک اہم شریک کی حیثت سے روس نے بڑی کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی سے وہ اپنے بین الاقوامی اعتماد میں اضافے کے لئے استمعال کر سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ پوتین نے حال ہی میں امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے کہا تھا کہ ایک قطبی نظام کا دور ختم ہو گيا ہے اور بین الاقوامی نظام چند قطبی نظام میں داخل ہو گیا ہے۔ پوتین کا یہ بیان اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ روس بھی میدان میں اپنی قدیمی پوزیشن کے ساتھ موجود ہے۔