الوقت - افغانستان 80 کے عشرے میں سوویت یونین سے بلاواسطہ مقابلے کے تناظر میں امریکا کی خارجہ پالیسی کے لئے بہت ملک تھا۔ اس سے پہلے تک اور ظاہر شاہ کے دور اقتدار میں دونوں ممالک کے تعلقات پر وائٹ ہاوس کے حکام نے زیادہ توجہ نہیں دی لیکن سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد امریکا کی حکمت عملی میں افغانستان کی جگہ محفوظ ہوگئی۔
دنیا میں اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے اور دنیا میں نئے نظام کو تشکیل دینے کے لئے امریکا کی سب سے پہلے نظر افغانستان پر پڑی اور اسی تناظر میں 11 ستمبر کے واقعے نے امریکی حکام کو رای عامہ کو اپنے ساتھ کرنے کا بہانہ فراہم کیا۔
افغانستان کی جنگ امریکا کے لئے سب سے خرچیلی اور طولانی ترین جنگ ثابت ہوئی۔ اس جنگ کو شروع ہوئے اب تک پندرہ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اس دوران امریکا میں دو صدر ایسے آئے جنہوں نے ایک جیسا نظریہ اختیار کرتے ہوئے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی حفاظت کی۔ جورج بوش اور اوباما کی حکمت عملی میں صرف اتنا فرق تھا کہ انہوں افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرکے 9800 تک کر دی اور افغان نیشنل آرمی اور پولیس کے حوالے سیکورٹی ذمہ داری کردی۔
ان سب سے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، دنیا میں امریکی فوجیوں کے خرچوں کو کم کرنے کے تناظر میں افغانستان کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخابات کے دوران، افغانستان پر دونوں کی امیداواروں ہلیر کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ نے خاص توجہ نہیں دی۔ اس طرح سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ شاید افغانستان کا موضوع امریکا کی خارجہ پالیسی سے نکل گیا ہے یا اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جائے گي لیکن ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ موجودہ وقت میں ٹرمپ افغانستان کی صورتحال کر درک نہیں کر رہے ہوں گے۔
امریکا، افغان حکومت کی سالانہ 3 ارب ڈالر کی مدد کرتا ہے جو افغانستان کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے حامیوں کی جانب سے دی جانے والی امداد میں سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح افغانستان کی قومی اتحاد کی حکومت کے رہنماؤں نے اوباما انتظامیہ کے ساتھ یہ سمجھوتہ کیا کہ 2015 سے 2018 تک افغانستان کو سالانہ 20 کروڑ ڈالر انجام دی جانے والی اصطلاحات کے مقابلے میں افغانستان کی تعمیر نو کے بجٹ سے حاصل کریں گے۔ دوسری جانب افغانستان کی امریکا کے سب سے بڑے اقتصادی حریف کی حیثت سے چین اور ایران کی مشترک سرحدیں ہیں۔
ٹرمپ نے انتخابات میں کامیابی سے پہلے اعلان کیا تھا کہ ان کا ارادہ غیر ملکوں میں امریکی فوجیوں کے خرچے کو کم کرنے کا ہے اور وہ ممالک جن کو اپنی سیکورٹی کے لئے امریکا کی ضرورت ہے انہیں اس کام کے لئے پیسے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر انہوں نے افغانستان کے حوالے سے یہ پالیسی اختیار کی تو علاقے میں امریکا نے جو کامیابیاں حاصل کی ہے وہ سب ہوا ہو جائے گی کیونکہ کابل کو مالی اور فوجی حمایت کے بغیر چھوڑ دینے کا مطلب دہشت گردوں کے لئے طاقت آزمانے کا ماحول فراہم کرنا ہوگا۔ دوسری بات اگر افغانستان میں امریکا نے یہ پالیسی اختیار کی تو اسے اپنی خارجہ پالیسی سے ایک اہم ملک کو کھونا پڑے گا۔ اسی لئے یہ پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی کہ ٹرمپ حکومت افغانستان کی فوجی اور مالی مدد میں کمی کر دے گی۔