الوقت - واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور تائیوان کے صدر کے درمیان متنازع گفتگو جو چین کے بارے میں واشنگٹن کی کئی عشروں کی پالیسیوں کے خلاف تھی، پوری طرح منظم اور پروگرام کے تحت انجام پائی۔
فارس نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں یہ مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ لوگ اس قدم کو جس سے امریکا اور تائیوان کے سربراہوں کے درمیان مذاکرات نہ کرنے کے پروٹوکول کی خلاف ورزی ہوئی، ایک بے تجربہ صدر کی بے لیاقتی قرار دیا تاہم بعض افراد کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا یہ قدم پوری طرح سوچا سمجھا اور منظم تھا اور اس کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ ان افراد کا کہنا تھا کہ یہ چین اور امریکا کے درمیان تعلقات کے بارے میں ٹرمپ کی جانب سے بیجنگ کو ایک پیغام تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے تائیوان کے صدر سے ٹیلیفونی گفتگو کی ہے جس پر چین نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
سی این این کے مطابق ٹرمپ نے تائیوان کے صدر سے ٹیلیفون پر گفتگو کرکے سفارتی پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے متعدد مسائل پر تائیوان کے صدر کے ساتھ بات چیت کی۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور تائیوان کی صدر کے درمیان جمعے کو فون پر تقریبا دس منٹ بات ہوئی تھی۔ گزشتہ 35 برسوں کے دوران امریکا کے کسی بھی منتخب صدر نے تائیوان کے صدر سے مذاکرات نہیں کئے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس نقطے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ بیجنگ، تائیوان کو وعدہ خلافی کرنے والی ریاست قرار دیتا ہے، واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے وہ متحد چین کا احترام کریں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ٹیلیفونی مذاکرات کی مذمت کرتے ہوئے اس کو حقیر اقدام سے تعبیر کیا ہے۔
در حقیقت چین، "ون چائنا پالیسی" کے تحت چین، تائیوان کو اپنا ایک صوبہ مانتا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ون چائنا پالیسی، چین اور امریکا کے تعلقات کے صحت مند پیشرفت کی بنیاد ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس پالیسی میں نہ مداخلت کی جائے گی اور نہ ہی اسے نقصان پہنچا جائے گا۔