الوقت - مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کا شام کی فوج اور شام میں جاری جنگ کے بارے میں دیئے گئے بیان، امریکا اور مصر کے تعلقات کے مستقبل، مصر کی جانب سے سعودی عرب کو دیئے گئے پیغامات، سعودی عرب اور مصر کے تعلقات میں کشیدگی جیسے متعدد مسائل پر الوقت نے مصر کے مشہور صحافی اور تجزیہ نگار الہامی الملیجی سے گفتگو کی، پیش خدمت ہیں گفتگو کو اہم اقتباسات :
الوقت : مصر کے صدر عبد الفتاح السیسی کے شام کی فوج اور شام کی یکجہتی کے بارے میں ٹی وی پر دیا گیا بیان ہم سب نے سنا۔ کیا سبب ہے کہ مصر نے شام کے بارے میں یہ موقف اختیار کیا ہے؟
الملیجی : سب سے پہلے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مصر کا کوئی نیا موقف نہیں ہے، نیا صرف اعلان ہے اور حکومت کی جانب سے پیش کی گئی وضاحت۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مصر کے اس موقف کا ہم نے دسمبر 2011 میں مشاہدہ کیا جب صدر السیسی عسکری کونسل کے رکن تھے، ان کا یہ بیان اس وقت بھی سامنے آیا جب وہ مسلح افواج کے سربراہ تھے۔ یہ موقف اس وقت بھی جاری رہا جب محمد مرسی نے شام کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا لیکن اس کے باوجود وزارت دفاع کی جانب سے سفارتی حمایت جاری رہی۔ جنرل عبد الفتاح سمجھتے تھے کہ شام کا قومی امن، مصر کا قومی امن ہے اور شام کی فوج کو ہونے والا ہر نقصان، مصر کی فوج کو ہونے والے نقصان کے مترادف ہے۔ مصر کی فوجی قیادت، شام کی فوج کو مصر کی فوج کا اٹوٹ حصہ سمجھتی ہے۔ یہ قاعدہ مصر اور شام کی تاریخ میں ثابت رہا لیکن مرسی نے آکر مصر کی فوج کو الگ موقف اختیار کرنے پر مجبور کر دیا کیونکہ وہ ان کی سمجھ میں کجھ نہیں آ رہا تھا، وہ حالات پر دقیق نظر نہیں رکھتے تھے۔
الوقت : امریکا کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مصر کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
الملیجی : میں سمجھتا ہوں کہ نیویارک میں ہونے والے ایک اجلاس میں صدر عبد الفتاح السیسی نے ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی رہنماؤں سے ملاقات کی تھی لیکن ٹرمپ سے ملاقات کے بعد ایک بیان جاری ہوا جس میں ٹرمپ اور السیسی کے درمیان گہرے اور دوستانہ تعلقات کی بات کہی گئی۔ اس کے بعد عبدالفتاح السیسی نے کھل کر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کر دیا جس کے بعد روزناموں اور اخبارات میں ان کی شدید مذمت کی گئی۔ السیسی کی جانب سے کلنٹن کی حمایت نہ کرنے کا سبب یہ تھا کہ ان کو پتا تھا کہ کلنٹن امریکا کی موجودہ انتظامیہ کا حصہ ہیں اور ان کو پتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات اتنے اچھے نہیں جتنے تصور کئے جا رہے ہیں۔
الوقت : یہ سنا گیا کہ سعودی عرب اور مصر کے تعلقات کو بحال کرنے کے لئے متحدہ عرب امارات کوشش کر رہا لیکن شام کی فوج کے بارے میں مصری صدر کے حالیہ بیان سے اس ثالثی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟
الملیجی : میں سمجھتا ہوں کہ شام کی فوج کی حمایت اور شام میں دہشت گردوں کی سرکوبی اور شام کی ارضی سالمیت، مصر کے لئے ڈیڈ لائن ہے اور مصر کی حکومت اس پر کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ میں نے اس سے پہلے مصر کے الاہرام اخبار میں مصر اور شام کے تعلقات کے مستقبل کے بارے میں مفصل مقالہ لکھا ہے۔ میں نے جو مقالے میں لکھا اسے پوشیدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آخر میں مصر اور شام کے درمیان تعلقات کے بحال ہونے سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں امن و استحکام کا قیام ہوگا اور یہ علاقے کے لئے بہت مفید ہے۔