الوقت- یورپ میں 2008 میں اقتصادی بحران پیدا ہونے اور اس بحران سے مقابلے کے لئے یورپی ممالک کے سیاسی نظام کے ڈھانچے کی کمزوری کی وجہ سے اس علاقے میں مہاجرین کے داخل ہونے میں اضافہ ہوا اور یورپ میں بے روزگاری 7 فیصد سے بڑھ کر 11 فیصد ہوگئی۔ اسی لئے یورپ کی بہت سے حکومتیں عوام کو دی جانے والی سہولیات کو ختم کرنے پر مجبور ہو سکی تاکہ اس طرح سے وسیع بحران پر لگام لگا سکیں۔
یہ صورتحال شام، عراق اور شمالی افریقہ میں جنگ کی حالت سے بحرانی ہونے سے مزید بحرانی ہوگئی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کئے گئے اعدا و شمار کے مطابق 2015 میں یونان میں ایشیائی اور افریقی مہاجرین کی تعداد گزشتہ برسوں کی بہ نسبت 408 فیصد زیادہ رہی ہے۔
یورپ میں داخل ہونے والے مہاجرین کی ثقافت، تعلیمات اور دین، یورپ میں رائج ثفافت اور دین سے بہت زیادہ متفاوت ہے اسی لئے اس بر اعظم میں مختلف قسم کے اجتماعی اور معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان شہروں اور ساحلی علاقوں کی صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے جہاں پناہ گزین داخل ہو رہے ہیں اور یورپی شہریوں اور مہاجرین کے درمیان شدید جھڑپوں کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ انہیں مسائل میں سے بھیک مانگنا اور چوری کے واقعات میں اضافہ بھی ہے جس نے یورپ کے مقامی افراد کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مہاجرین کو قبول کرنے والی حکومتیں بھی اپنے بجٹ سے جو ٹیکس سے پورا کیا جاتا ہے، اپنے بن بلائے مہمان کی خدمت کرنے اور ان کو سہولیات فراہم کرنے پر مجبور ہیں۔
ان حالات میں مہاجرت کو محدود کرنے کے لئے قومی سرحدوں کو مضبوط کرنے، اس بحران کو شدت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے لئے یورپی پارلیمنٹ کی پالیسیوں کا ساتھ نہ دینا اور اسی طرح طاقتور فلاحی حکومتوں کا بر سر اقتدار آنا، یورپ کے عوام کے اہم مطالبات میں تبدیل ہوگئے۔ اس بنیاد پر بائیں بازو کی جماعتیں عوام میں زیادہ مقبول ہوگئیں، یورپ کے عوام کو امید تھی کہ بائیں بازو کی حکومتیں، مذہب عیسائی کو رائج کرکے اور ان کی مذہبی شناخت کی حفاظت کرکے مسلمان مہاجرین کے مقابلے میں ان کے دین و ایمان کا دفاع کر سکتی ہیں۔
اس امید کے عملی جامہ پہننے کی وجہ سے برطانیہ کے زیادہ تر افراد نے یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کے حق میں ووٹ ڈالا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں بائیں بازو کی پارٹیوں کا مقام مضبوط ہو رہا ہے۔
یورپ کے تقریبا تمام ممالک میں الگ الگ انداز میں بائیں بازوں کی پارٹیاں سرگرم ہیں۔ ان جماعتوں کے رہنما شدت پسند ہونے کے ساتھ ہی اپنی قوم و ملک کی ثفافت اور شناخت کا دفاع اور اقتصادی اور مہاجرین کے بحران کے بارے میں اعتدال پسند نظریہ اختیار کرکے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب رہی ہيں۔ ان پارٹیوں کی ترقی اور وسعت کا عمل تقریبا ایک عشرہ پہلے شروع ہوگیا ہے گرچہ یہ پارٹیاں 70 اور 80 کے عشرے میں وجود میں آئی ہیں۔