الوقت - 2008 میں جب باراک اوباما امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو یہ ملک جارج بوش کی جنگ پسندانہ پالیسی کے نتیجہ میں افغانستان اور عراق کی فوجی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اوباما کے ظاہری امن پسندانہ سلوک اور مشرق وسطی میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ختم کرنے کے لئے ان کے پروگرام کی وجہ سے عوام نے ان کو اپنے قیمتی ووٹوں سے نوازا تھا۔
اوباما نے اپنے انتخابی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عراق اور افغانستان سے اپنے فوجیوں کی بڑی تعداد کو نکال لیا جس کے بعد 2010 میں انہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ پتا چل گیا کہ یہ پروگرام وائٹ ہاوس کی خارجہ پالیسی میں صرف ایک اسٹرٹیجک تبدیلی تھا۔
امریکی صدر باراک اوباما نے مشرق وسطی میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے منفی نتائج کو روکنے کے لئے ان ممالک میں کشیدگی پیدا کرنے کے ہدف سے مخفی جنگ پسندانہ پالیسی اختیار کی جہاں باضابطہ جنگ کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ ان منظم حکمت عملی پر ملک کے اندر فوجی حملے کے مخالفین گروہوں کا نہ تو کوئی رد عمل سامنے آیا اور نہ ہی امریکا کے خلاف علاقائی رائے عامہ میں نفرت کا اضافہ ہوا۔ اسی بنیاد پر اوباما کی حکومت کے شروعاتی چار برسوں میں خفیہ مہم انجام دینے کے لئے اسپیشل کمانڈوز کو دوسرے ممالک میں بھیجا گیا۔ ان میں سب سے اہم کاروائی امریکی فوجیوں کا پاکستان کی سرزمین پر حملہ اور القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن کا مارا جانا تھا۔ امریکی فوجیوں کی یہ خفیہ کاروائی 2011 تک 120 کاروائی تک پہنچ گئی تھی۔
باضابطہ سرحدوں اور سیاسی استحکام کو درہم برہم کرنا، عظیم مشرق وسطی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے تناظر میں امریکا کے اصل ہدف تھے۔ در ایں اثنا اوباما نے اسی نقطے سے جہاں بوش نے ختم کیا تھا، نئی حکمت عملی شروع کی۔ در ایں اثنا وائٹ ہاوس نے لیبیا پر نیٹو کے حملے کو ملک میں نظم و نسق کا قیام اور حکومت میں دہشت گردوں کو پہنچنے سے روکنے کا بہانہ قرار دیا۔ لیبیا پر نیٹو کے حملے وحشی حملے میں بہت سے عام شہری جاں بحق ہوئے اور اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا۔ اس وحشیانہ حملے کے آج تک منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس حقیقت کا تصور کتنا سخت ہو کہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والا کسی ملک پر حملہ کرے، اس سے بڑھ کر وہ بھی غیر قانونی طریقہ سے حملہ کرے اور سیکورٹی کونسل کی اجازت تک نہ لے۔ یہ احساس کتنا تلخ تھا۔ یہ موضوع امریکا کے مغربی اتحادیوں اور انسانی حقوق کا کا دم بھرنے والوں کے لئے قابل ہضم تھا کیونکہ انہوں نے کبھی بھی اس موضوع پر اعتراض تک نہ کیا۔ یہی روش شام اور عراق میں بھی جاری رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2014 سے اب تک ان دونوں جنگ زدہ علاقوں میں تقریبا 900 ڈرون حملے پینٹاگن کی جانب سے کئے گئے جس میں جارج بوش کے زمانے میں ہونے والے ڈرون حملوں میں مارے گئے افراد کی بہ نسبت 20 گنا افراد مارے گئے۔
اسی تناظر میں یمن پر سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کے حملوں کا آغاز ہو گیا جو اوبامہ کی پالیسیوں کا ہی حصہ تصور کیا گیا۔ اس سے پہلے تک بحران یمن میں امریکا کے کردار کے بارے میں جائزہ لینے پر پتا چلتا تھا کہ بحران یمن پر واشنگٹن کے حکام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں اور صرف سعودی عرب کو خفیہ اطلاعات فراہم کر رہے ہیں لیکن ویکی لیکس نے جنگ یمن سے متعلق جو دستاویزات جاری کئے ان سے صاف پتا چلتا ہے کہ صنعا میں امریکی سفارتخانہ، یمن پر سعودی عرب کے حملے سے پہلے تک منصور ہادی کے حامیوں کو مسلح کرتا رہا ہے۔