الوقت - ایسی حالت میں کہ جب سعودی عرب، یمن پر وسیع حملوں اور علاقے میں دہشت گردوں کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت کرنے کی وجہ سے 81 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کر رہا ہے اور ریاض نے ملک میں جاری اربوں ڈالرکے تعمیراتی منصوبوں کو ملتوی اور بجٹ کٹوتی کی سیاست پر عمل در آمد شروع کر دیا ہے، امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے سے ممکنہ طور پر امریکا کی جانب سے سعودی عرب کی پالیسیوں کی حمایت کم ہو سکتی ہے۔ ان حالات سے مستقبل قریب میں مسئلہ یمن کے حل کی امیدوں میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے تحریک انصار اللہ کی قیادت میں خود یمنی شہریوں نے ملک میں سیاسی عمل کو جاری رکھتے ہوئے پارلیمنٹ اور قومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل کی زمین فراہم کی دی ہے۔
ان سب کے باوجود یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے دوران پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے پتا چلتا ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے مستقبل کے بارے میں پیشنگوئی کرنا زیادہ آسان نہیں ہے اور آخرکار ملک کے مستقبل کا تعین کرنے والا عنصر میدان جنگ میں شکست اور کامیابی رہا ہے۔ موجودہ حالات میں میدان جنگ کے حالات اور علاقہ کی سطح پر سیاسی عمل سے جو چيزیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ یمن کی صورتحال بدستور مبہم ہے اور یہ موجودہ تبدیلیوں سے توانائی سے ساتھ ابھر آنے والی طاقتوں پر منحصر ہے۔ یہی سبب ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور حملوں کے باوجود بھی مذاکرات کا راستہ بند نہیں ہوا اور یہ ماحول موجود ہے کہ سیاسی مذاکرات، بحران میں گرفتار فریقین کے لئے کوئی خاص نتیجہ کے حامل ہو سکتے ہیں۔ بحران یمن کے دوران تحریک انصار اللہ یمن میں ایک ایسی تنظیم کی حیثیت سے سامنے آئی ہے جسے ملک کے وسیع طبقے کی حمایت حاصل ہے جن میں زیدی، شافعی اور کچھ یمنی قبائل کی پر زور حمایت حاصل ہے جس نے اس تحریک کو یمن کی مضبوط تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔ یمن کے عوام نے یہ درک کر دیا ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس جنگی تجربات سے لے کر ملک چلانے تک کے تجربات ہیں۔ انصار اللہ نے اپنے قدیمی دشمن یعنی عبد اللہ صالح اور فوج کے ساتھ اتحاد کرکے یہ دکھا دیا کہ انہوں نے حالات کو اچھی طرح درک کرنا سیکھ لیا ہے۔ ان حالات کی وجہ سے خود سعودی عرب نے متعدد مواقع پر کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ انصار اللہ کو باضبطہ قبول کیا اور بحران کے اصل کھلاڑی کی حیثیت سے ان تحریک کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہوا لیکن جو چيز مذاکرات کے بند گلی میں پہنچنے کا سبب بنی ہے اور جس کی وجہ سعودی عرب کے اقدامات کے نشیب و فراز جاری رہے، اس کے کچھ اسباب ہیں۔ پہلا موضوع مذاکرات کو معین کرنے والا ہے جس کے دو اصل محور ہیں زیر کنٹرول علاقے اور بھاری اور ہلکے بھاری ہتھیار ہیں جن سے زیادہ امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ یمن میں ہتھیار اور علاقہ وہ بھی جنگ کے شعلے بھڑکنے کے موقع پر میدان جنگ اور سیاسی مذاکرات میں فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔
دوسرا سعودی عرب کا اصل ہدف یہ رہا ہے کہ وہ یمن کے بنیادی ڈھانچے کو اتنا زیادہ تباہ کر دے گی تاکہ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بحرانی انسانی صورتحال، انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں کی توجہ تعمیر نو پر کر دے اور ان حالات سے وہ مذاکرات کی میز پر ایک امتیازی حیثیت کے طور پر استفادہ کر سکے۔ سعودی عرب ان سب چيزوں سے غافل ہے کہ ایک طرف یمن کے عوام اور یمنی گروہوں کی مزاحمت کی وجہ سے سعودی عرب تقریبا دیوالیہ ہو چکا ہے اور سعودی عرب کے معاشرے میں اقتصادی بحران کی علامتیں صاف نظر آ رہی ہیں کیونکہ سعودی عرب نے یمن اور دوسرے ممالک میں جنگوں اور دہشت گردوں کی حمایت میں بے پناہ پیسہ خرچ کیا ہے۔ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ سیاسی اور جنگ کے میدان دونوں ہی میں انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن مضبوط ہے۔