الوقت - روس اور فرانس کی قرارداد کے بارے میں اقوام متحدہ میں مصر کے نمائندے کے موقف، روس کی قرار داد کی حمایت اور فرانس کی قرارداد کی مخالفت اور شام کی موجودہ حکومت کی ضمنی حمایت اور سعودی عرب کی جانب سے مصر کے اس اقدام کی مذمت کے بعد مصر اور سعودی عرب کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ تعلقات اتنے زیادہ کشیدہ ہوگئے کہ سعودی حکام نے اپنے اختیار میں موجود ہتھکنڈوں بالجملہ پیٹرول اور ڈیزل کی سپلائی مصر کے لئے روک دی۔ اس سے پہلے تک سعودی عرب ماہانہ مصر کے تیل اور پیٹرول کا پیکج ارسال کیا کرتا تھا۔
در ایں اثنا سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی نے مصر ارسال کئے جانے والے تیل کے پیکیج کو روک دیا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس سے پہلے تک سعودی عرب کی تیل کمپنی ماہانہ مصر کے لئے تیل کا پیکیج روانہ کرتی تھی لیکن شام کے بارے میں مصر کے حالیہ موقف کے بعد سعودی عرب نے مصری حکومت پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوشش شروع کر دی اور اس کے لئے اس نے تیل کو ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔
سعودی حکام یہ گمان کر رہے تھے کہ اس ہتھکنڈے کے استعمال سے مصر ان کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کر دے گا اور اپنی آزادانہ خارجہ پالیسی سے پسپائی اختیار کر لے لیکن مصر نے نہ صرف پسپائی اختیار کی بلکہ اس نے اپنے تیل اور توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے عراق، کویت اور آخر میں ایران کا رخ کیا۔ اسی تناظر میں روئٹرز نے قائرہ کے ائیرپورٹ کے باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ مصر کے وزیر پیٹرولیم نے گزشتہ اتوار کو تہران کا سفرکیا تاہم مصری وزیر پیٹرولیم نے دوشنبہ کو اس خبر کی تردید کر دی ۔
مصری وزیر پیٹرولیم کا یہ اقدام سعودی عرب کی جانب سے مصر کو سستے تیل کی سپلائی روکنے کے بعد انجام پایا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصر کو سستے تیل کی سپلائی روک کر ریاض نے قاہرہ کو سزا دینے کی کوشش کی ہے۔ مصر سیکورٹی کونسل کا غیر مستقل رکن ہے اور اس نے شام کے بارے میں روس کی تجویز کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔ سعودی عرب کے اس کی ذرہ برابر بھی توقع نہیں تھی اور اس نے مصر کے اس قدم کی شدید مذمت کی۔
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مصر کے وزیر پیٹرولیم نے ایران کا دورہ کیا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری ایسا موضوع ہے جس نے سعودی حکام کے غصے کو بھڑکا دیا۔ شام اور شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو باقی رکھنے کے بارے میں ایران اور مصر کے مواقف کافی نزدیک ہیں۔
مصر کے وزیر دفاع عبد الفتاح السیسی کی جانب سے 2013 میں مصر کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے سعودی عرب کی حکومت اب تک سعودی عرب، مصر کی اربوں ڈالر کی امداد کر چکا ہے۔
قاہرہ ایئرپورٹ پر مصر کے وزیر پیٹرولیم کے ساتھ ایک ذریعے نے بتایا کہ وہ ایران کے اعلی حکام کے ساتھ تہران سے تیل خریدنے کے امکانات کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مصر کے وزیر پیٹرولیم کا دورہ ایران یعنی علاقے میں سعودی عرب کے اصلی دشمن ملک کا دورہ، قاہرہ اور ریاض کے درمیان زیادہ مقابلہ آرائی کی علامت ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے تیل کی سپلائی رک جانے کے بعد ریاض نے دوسرے ذرائع سے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ممکن ہے کہ مصر جمہوریہ آذربائجان کے ساتھ سمجھوتہ کرکے تیل کی خریداری کا سلسل شروع کر دے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے تہران اور قاہرہ کے تعلقات منقطع ہو گئے تھے اور مصر کے وزیر پیٹرولیم کا دورہ ایران، دو طرفہ مذاکرات کے لئے نادر چيز ہے۔ ایران اور مصر کے تعلقات کو منقطع ہوئے تقریبا چالیس سال ہوگئے ہیں اور تہران میں مصر کا سفارتخانہ بھی نہیں ہے۔
ایران نے بھی اس سے پہلے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ شام کے بارے میں لوزان بین الاقوامی نشست میں مصر اور عراق کے وزارئے خارجہ کو بھی مدعو کیا جائے تبھی ایران بھی اس اجلاس میں شریک ہوگا۔