الوقت - میانمار کی لیڈر آنگ سان سوچی کو مسلم اکثریتی ریاست راکھینے میں جاری تشدد کے خاتمے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ راکھینے میں بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آباد ہیں، ان پر وقفے وقفے سے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔
بدھ مذہب کے ماننے والے شر پسند انہیں مختلف طریقے سے پریشان کرتے ہیں۔ اس کے باوجود فوجی دستے راکھینے کے متاثرہ شہریوں کو امدادی قافلوں کو جانے نہیں دیتے ہیں۔ میانمار کے فوجیوں پر روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کے قتل کے الزامات بھی عائد کئے جارہے ہیں۔
راخین میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے سوچی کی سویلین حکومت اور ملک کی طاقتور فوج کے درمیان کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ بنگلا دیش کی سرحد پر 9 اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد 9 اکتوبر کو راکھینے میں فوجی دستے بھیجے گئے تھے۔
ادھر رائٹرس کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے عالمی سفارت کار میانمار کے بحران زدہ علاقوں کا دورہ کریں گے اور وہاں کی صورتحال پر ایک رپورٹ پیش کریں گے۔ دریں اثناء سوچی کے دورۂ جاپان میں بھی روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ زیر بحث آیا۔