الوقت - شام کے شمالی محاذ پر ان دنوں عراق کے شمالی محاذ کی طرح آگ لگی ہوئی ہے۔ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر شامی اور روسی جنگی طیاروں کے مسلسل حملے اور حلب میں دہشت گردوں ارد گرد مزید حلقہ تنگ ہونے سے مسائل وجود میں آئے کہ مفاد پرست عالمی طاقتیں، طاقت کے توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے در پے ہیں۔ شمالی شام میں ترکی اہم غیر ملکی کھلاڑی کی حیثیت سے کردار ادا کر رہا ہے۔ شام کے ملنے والی ترکی کی وسیع سرحدوں کے مد نظر، شمالی محاذ پر ہونے والی ہر طرح کی سرگرمی، ترکی کے جنوبی علاقوں کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ترکی، شام کے شمالی میں کن اہداف اور مفاد کے درپے ہے۔ کیا عراق کے موصل شہر جیسا شام کے بارے میں بھی اس کا دعوی ہے؟ شام اور ترکی کے درمیان کشیدگی بڑھنے کی صورت میں کیا دونوں فریق کے درمیان فوجی تصادم کا امکان پایا جاتا ہے؟
1- ترکی، شام کے شمال میں بفر زون قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام میں بفر زون کا منصوبہ جس کی تجویز شروعات میں شام کی حکومت کے مخالف ممالک کی جانب سے پیش کی گئي اور اس منصوبے کی بنیاد پر شام - ترکی سرحد سے ملے صوبہ حلب کے 20 کیلو میٹر کے رقبے میں شام کے عام شہریوں کی حفاظت کے بہانے بفر زون قائم کیا جانا تھا۔ گرچہ دہشت گردوں کے اصل حامی ممالک نے یہ منصوبہ پیش کیا تھا، یہ منصوبہ شامی عوام کی جان کی حفاظت کے مقصد سے پیش نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس کا اصل مقصد علاقے پر مکمل کنٹرول تھا جس کے تحت ترکی دہشت گردوں کی ٹریننگ آسانی سے انجام دے سکتا اور شام کے میدان جنگ میں طاقت کے توازن کو دہشت گردوں کے حق میں موڑ دیتا۔ علاقے میں بفر زون کی ناکامی کی صورت میں ترکی کا دوسرا ہدف علاقے میں نو فلائي زون قائم کرنا ہے تاکہ اس علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف فضائیہ کاروائی نہ کر سکے۔ نو فلائی زون کے نفاذ کا اصل ہدف، شام میں لیبیا جیسا ڈرامہ دوہرانا تھا۔ لیبیا میں نو فلائی زون قائم کیا گیا جس کے بعد لیبیا کی فوجیں، ملک کے انقلابیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکیں اور اس کا نتیجہ معمر قذافی کی حکومت کی سرنگونی کی شکل میں برآمد ہوا۔
2- ترکی، کردوں کے طاقتور ہونے سے خوفزدہ ہے۔ شام کے شمالی علاقوں مین کردوں کی پشرفت اور منبج شہر پر ان کے قبضے اور الباب کے علاقے پر قبضے کے بعد جو داعش کی آمد و رفت کا راستہ سمجھا جاتا ہے، ترکی نے کردوں کی ہر طرح کی پیشرفت کی مخالفت کر دی ۔ ترکی کی مخالفت کا اصل سبب، کردوں کی جانب سے الباب اور جرابلس علاقے پر کنٹرول تھا۔ ترکی کو یہ پتا تھا کہ جرابلس اور الباب علاقے پر کردوں کے قبضے کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ترکی کے کردستان کی تشکیل کا مشاہدہ کیا جائے۔
3 - ترکی موجودہ وقت میں شام سے کسی بھی طرح کے فوجی تصادم کا خواہشمند نہیں ہے۔ اس سے دوسبب ہیں : پہلا تو یہ ہے کہ انقرہ اور دمشق کے درمیان جنگ سے سب سے زیادہ فائدہ کردوں کو ہوگا اور اس سے فائدہ اٹھا کر کرد اپنی خود مختاری کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جنوبی ترکی میں پی کے کے ترکی کے لئے شدید خطرہ سمجھا جاتا ہے اور ترکی کے اندر اس گروہ کی سرگرمیوں اور ملک کی تشدد آمیز صورتحال سے فائدہ اٹھائے جانے کے مد نظر، ترکی شام کے ساتھ براہ راست تصادم کا ارادہ نہیں رکھتا۔
4 - حالیہ فوجی بغاوت اور باغیوں کا خاتمہ کئے جانے کے مد نظرترکی کی فوج موجودہ وقت میں فوجی تصادم کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان بھی موجودہ صورتحال سے آگاہ ہوتے ہوئے، موجودہ حالات کو بدلنے کی کوشش نہیں گریں گے اور موجود صورتحال کو فوج کو مشغول کرنے کا موقع سمجھیں گے۔
بہرحال یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی ملک اور بین الاقوامی سطح پر موجودہ صورتحال کے پیش نظر شام کی فوج سے براہ راست تصادم کی توانائی نہیں رکھتی۔