الوقت - مشرق وسطی کے امور کے مشہورو تجزیہ نگار معسود اسد اللہی نے الوقت سے گفتگو میں موصل سٹی کی آزادی کی مہم کو فلوجہ کی آزادی کی مہم سے تشبیہ دی اور کہا کہ آپریشن میں شامل فوجیں سب سے پہلے نواحی علاقوں کو آزاد کرانے کی کوشش میں ہے اور اس کے بعد محاصرہ تنگ کرکے اصل آپریشن شروع کریں گئیں۔ اسد اللہی نے داعش کی طرفداری میں عراق کے آپریشن میں مدد کرنے کے امریکا کے خراب ماضی کے مد نظر کہا کہ اب یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ موصل سٹی کی مہم کے دوران مغرب اتحاد ایسے اقدامات انجام دے گا تاکہ داعش کے سرغنہ فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں اور عراق کی سرحد سے شام میں داخل ہو جائیں۔ اس تجزیہ نگار نے اسی طرح تاکید کی کہ اگر موصل آزاد ہو گیا تو داعش کو کاری فوجی، سکیورٹی اور ذہنی ضرب لگے گی اور داعش کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کی اہم کامیابی سمجھی جائے گی۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ یہ کامیابی مکمل ہو، یا داعش کے عناصر موصل میں گرفتار ہو یا مارے جائیں۔
الوقت - موصل سٹی کی آزادی کی مہم اور اس مہم میں شامل فوجوں کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب : موصل کی آزادی کا عمل فلوجہ کی آزادی کی مہم کی طرح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے نواحی علاقوں کو آزاد کرنے کی کوشش کی جائے گی اور شہر کے مرکز پر حملہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اگر آس پاس کے علاقے آزاد ہو جائیں گے تو اس کے بعد شہر کا مکمل محاصرہ کرنے میں کامیابی مل جائے گی۔ اسی لئے ہوسکتا ہے کہ موصل کی آزادی کا آپریش کچھ طولانی ہو جائے لیکن اس صورت میں پورے شہر کا 360 ڈگری محاصرہ ہو جائے گا۔ بہر حال عراق کی فوج، فیڈرل پولیس اور سیکورٹی اہلکار جن کا تعلق عراقی حکومت سے ہے، براہ راست موصل سٹی کی مہم میں شریک ہیں۔ اس آپریشن میں رضاکار فورس کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کے علاوہ کرد پیشمرگہ فوجیں بھی شریک ہیں کیونکہ موصل کرد اکثریتی علاقے سے نزدیک واقع ہے۔ البتہ یہ لوگ فلوجہ کی مہم میں شریک نہیں تھے۔
الوقت – رضاکار فورس کے کردار پر کچھ روشنی ڈالئے اور کیوں موصل کی آزادی کی مہم میں رضاکار فورس کے اہم کردار کے امریکی مخالف ہیں ؟
جواب : اس آپریشن میں رضاکار فورس اہم اور سرگرم کردار ادا کر رہی ہے۔ اگر چہ امریکیوں نے آپریشن میں رضاکار فورس کی موجودگی کی بہت مخالفت کی اور مختلف بہانوں اور فرقہ وارانہ بیانات سے عراق میں شیعہ اور سنی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ موصل ایک سنی اکثریتی علاقہ ہے اور اسے سنی فوج کے ذریعے ہی آزاد ہونا چاہئے لیکن رضاکار فورس جن علاقوں میں بھی داخل ہوئی اس نے یہ واضح کر دیا کہ وہ کبھی بھی مذہبی اور فرقہ وارانہ اقدامات انجام نہیں دیتی۔ رضاکار فور میں عراق میں موجود تمام فرقے اور مذہب کے افراد شامل ہیں۔ اس میں شیعہ، سنی، عیسائی وغیر سب ہی شامل ہیں۔
الوقت - موصل کی آزادی کی مہم میں امریکا کے کردار پر کیوں کچھ افراد کو تشویش ہے؟
جواب : امریکا اور کچھ مغرب ممالک نے کچھ سال پہلے اور موصل کے سقوط کے کچھ برس بعد داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی تشکیل کی تھی۔ ان کا دعوی ہے کہ امریکا کی سربراہی میں بین الاقوامی اتحاد، عراقی فوج کی حمایت کرنے، فضائی حملے، توپخانوں کے حملے اور فوجی مشاور سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کر رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے سب کو پتا ہے کہ امریکا اور مغربی اتحاد کی مشارکت مشکوک ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ موصل کی آزادی کی مہم میں مدد کرنے کے بجائے فرار ہونے میں داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ اسی لئے اب یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ موصل سٹی کی مہم کے دوران مغرب اتحاد ایسے اقدامات انجام دے گا تاکہ داعش کے سرغنہ فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں اور عراق کی سرحد سے شام میں داخل ہو جائیں۔
الوقت - موصل کی آزادی کی مہم میں ترکی کے شریک ہونے کے کیا اہداف ہیں اور کیوں وہ اس آپریشن میں شریک ہونے کا اتنا اصرار کر رہا ہے؟
جواب : ترکی کچھ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ترکی کا دعوی ہے کہ تاریخی لحاظ سے موصل اس سے متعلق ہے اور اس کا دعوی ہے کہ موصل، ترکی کا شہر تھا اور سايکس - پیکو معاہدے کی وجہ سے یہ شہر ناحق طریقے سے ترکی سے جدا ہو گیا، ترکی کا یہ دعوی بھی قابل توجہ ہے، کیونکہ موصل شہر کے زیادہ تر شہری عرب ہیں اور کجھ ترکمن لوگ ہی اس شہر کے باشندے ہیں۔ اس طرح سے ترکمن، عراق کے دوسرے شہروں میں بھی آباد ہیں اور ان کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ترکی پورے شہر پر دعوی کر دے کہ یہ شہر ترکی کا حصہ ہے۔ بہر حال ترک صدر نے بزغم ناقص یہ سوچا کہ یہ دعوی کرنے کا بہترین موقع ہے۔
ترکی کی مداخلت کا دوسرا سبب یہ ہے کہ شمال عراق میں یہ شہر بہت ہی اہم شہر ہے اور موصل پر جس کا بھی قبضہ ہوگا، پورے شمالی عراق پر ان کا کنٹرول ہوگا۔ تیسرا یہ کہ ترک صدر کے یہ تشویش ہے کہ ملک میں دوبارہ فوجی بغاوت نہ ہو جائے، اسی لئے انہوں نے اس خطرے کو دور کرنے کے لئے فوج کو ایک محاذ پر مشغول کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔