الوقت - شامی حکومت نے ملک کے خلاف ترکی کے تازہ حملوں کو غاصبانہ قبضے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور اس سے نمٹنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات پر زور دیا۔
ہفتے کو شامی فوج کی مشترکہ کمان نے ایک بیان میں کہا کہ شام کی سر زمین پر ترک فوجیوں کی موجودگی شام کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی اور اشتعال انگیز قدم ہے جو قابل قبول نہیں ہے ۔
یہ بیان ایسے وقت آیا جب مقامی حکام اور عوام نے کہا کہ ترک ٹینک اور ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گرد شمالی شام کے تل رفعت قصبے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تل رفعت قصبے کا بڑا علاقہ کرد فورسز کے کنٹرول میں ہے۔ اس قصبے کے قریب ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گردوں اور ترک فوجیوں کے درمیان جنگ کی رپورٹ ہے۔
اس درمیان ترک فوج نے ہفتے کو اس بات کی تصدیق کی کہ اس نے جمعے کو شمالی شام میں کرد پیپلز پروٹیکشن یونٹ وائی پی جی کے 70 ٹھکانوں پر راکٹ سے حملہ کیا۔
انقرہ وائی پی جی اور اس کے اتحادی ڈیموکریٹک یونین پارٹی کو کردستان وركرز پارٹی پي كےكے سے وابستہ دہشت گرد قرار دیتا ہے جو دہائیوں سے ترکی کے کرد اکثریتی علاقوں میں خود مختاری کی جنگ میں مصروف ہیں۔
اس درمیان ہفتے کو ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اعلان کیا کہ ان کا ملک شمالی شام کے الباب، منبج اور رققہ شہروں میں داخل ہوکر اپنی کارروائی میں اضافہ کرے گی۔
اردوغان نے بین الاقوامی برادری کی جانب سے تنقید کے باوجود دعوی کیا کہ ترکی کے پاس الباب شہر میں داخل ہونے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے کیونکہ ہمیں دہشت گردی سے خالی ایک علاقے بنانے کی ضرورت ہے اور ایسا ہی منبج میں بھی کریں گے۔