الوقت - عراق کے موصل سٹی کی آزادی کی الٹی گنتی شروع ہونے کے ساتھ ہی داعش دہشت گرد گروہ نے اپنے اعلی کمانڈروں کو عراق سے نکال کر شام کی جانب روانہ کر دیا ہے اور کم تجربہ اور کم ماہر کمانڈروں کو ذمہ دای دے دی گئی۔
لبنانی اخبار السفیر کی رپورٹ کے مطابق، موصل سٹی کی حساس جنگ کے لئے داعش نے اپنے کم تجربہ کمانڈروں کے حوالے موصل سٹی کے آپریشن کی ذمہ داری دے دی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ داعش کے لئے عراق کا موصل شہر شام کے رقہ شہر سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
داعش سے مقابلہ سخت لیکن زیادہ طولانی نہیں :
موصل سٹی کی جنگ داعش کے خلاف ہونے والی دیگر جنگوں کے برحلاف جن میں پوری طاقت کا مظاہرہ کیا گیا، ایسی صورت میں شروع ہوئی کہ اس میں تشویق کے عنصر فاقد ہیں اور اس جنگ کا نتیجہ پہلے سے ہی معلوم ہے بلکہ جنگ کے ختم ہونے کی تاریخ بھی پہلے سے ہی معین کی جا سکتی ہے کیونکہ یہ امید نہیں موصل سٹی کا آپریشن امریکا کے صدارتی انتخابات کے بعد تک جاری رہے گا لیکن یہ کہ کوئی غیر متوقع واقعہ پیش آ جائے۔
داعش نے موصل میں کم جنگجوؤں کا سہارا کیوں لیا؟
داعش کو جو اب اپنے اتحادیوں کے درمیان اختلافات کا نظارہ کر رہا ہے جنہوں نے اس گروہ کے خلاف اتحاد تشکیل دے رکھا ہے، یہ پتا ہے کہ موصل کی مہم میں اسے شکست کا سامنا کرنا ہے اور اس یہ نتیجہ حتمی ہے، اسی لئے اس نے کم جنگجوؤں کے ساتھ میدان جنگ جانے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے بہت سے اعلی کمانڈوروں کو ان کے خاندان کے ساتھ شام منتقل کر دیا ہے۔ نینوا صوبے میں داعش کی سرگرمیوں پر نظر ڈالنے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس گروہ کو موصل سٹی میں کامیابی کی کچھ زیادہ امید نہیں ہے۔
داعش کے سرغنہ موصل آپریشن میں پوری طرح تیار نہيں :
موجودہ وقت میں موصل میں داعش کی کمانڈ ابو شاکر الجبوری اور ابو عبد اللہ العفری کے ہاتھ میں ہے اور داعش کا یہ خیال ہے کہ یہ دو کمانڈر حجی بکر اور ابو عبدالرحمن البیلاوی جیسے کمانڈروں سے کم تجربہ رکھتے ہیں۔ داعش کے یہ دونوں کمانڈر فوج کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ عراقی خبرنگار اور جہادی تحریک کے ماہر خالد القیسی کے مطابق داعش کے یہ دونوں کمانڈ فوجی لحاظ سے موصل سٹی کا آپریشن چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
داعش کے بہت سے اعلی کمانڈروں کی ہلاکت :
بہر حال موصل سٹی کی مہم کے لئے ان دو کمانڈروں کے تعین کے متعدد معنی ہیں۔ پہلا تو یہ ہے داعش کی بانی زیادہ تر کمانڈر ہلاک ہو چکے ہیں اور اب اس گروہ میں تجربہ کار اور ماہر کمانڈروں کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ کم تجربے اور اناڑی جنگجوؤں کا سہارا لینے پر مجبور ہے۔
داعش باقی بچے جنگجوؤں کو بچانے کی کیوں کوشش کر رہا ہے:
ان سب سے باوجود ہو سکتا ہے کہ یہ نتیجہ صحیح نہ ہو کیونکہ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا ہے کہ داعش اس سخت مرحلے میں اپنی باقی بچی قیادت اور جنگجوؤں کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں ہے اور اسی لئے وہ میدان جنگ میں اپنے اعلی کمانڈروں کو روانہ کرنے سے پرہیز کر رہا ہے۔
داعش کے مشہور کمانڈرز عراق سے نکل چکے ہیں :
داعش کے مشہور کمانڈروں میں سے ایک ایاد عبد الرحمن بھی ہے جس نے موصل سٹی کی مہم شروع ہونے سے پہلے ہی عراق چھوڑ کر شام روانہ ہو گیا ہے۔ وہ عراق میں بغدادی کا معاون اور فوجی کونسل کا سربراہ تھا۔
داعش کا ایک اور سرغنہ عمر زیدان السلطی ہے جو اردن کا شہری ہے۔ وہ داعش کی مرکزی کونسل کا سربراہ تھا۔ یہ عہدہ صرف داعش کے عراقی ارکان کے لئے مخصوص تھی اور اس سے پہلے کسی غیر عراقی کو اس عہدے سے نوازا نہیں گیا۔ گل مراد حلیم اف داعش کا تاجیکی سرغنہ اور عمر چیچنی کا جانشین اور داعش کا اعلی کمانڈر ہے۔ ان تمام نے عراق چھوڑ کر شام کا رخ کر لیا ہے۔
موصل داعش کے لئے غیر محفوظ ہو گیا ہے:
بے شک عراق چھوڑ کر شام جانے والے داعش کے دوسرے سرغنوں کا نام ابھی فاش نہیں ہوا ہے جبکہ موصل میں داعش کے خلاف عراقی فوج کی مہم کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ داعش موصل کو اپنے لئے غیر محفوظ ٹھکانہ تصور کرنے لگا ہے اسی لئے وہ جلد از جلد اپنے اعلی کمانڈروں کو عراق سے نکالنے کی کوشش میں ہے۔