الوقت - سعودی عرب کی بحریہ نے 4 اکتوبر سے آبنائے ہرمز میں اپنی فوجی مشقیں شروع کیں۔ ان فوجی مشقوں کا نام گلف شیلڈ -1 نام رکھا گیا ہے۔ اس میں جنگی کشتیاں، اسپیڈ بوٹس، فضائیہ، بحری اور سعودی عرب کی فوج کے خصوصی دستے شامل ہوئے۔ یہ فوجی مشقیں آبنائے ہرمز اور دریائے عمان میں منعقد ہوئیں۔ سعودی عرب کی حکومت کے مطابق یہ فوجی مشقوں کے سلسلے کی پہلی مشق ہے اور مستقبل میں بھی اس طرح کی فوجی مشقیں منعقد ہوں گی۔ سعودی عرب کی بحریہ میں 13500 فوجی ہیں جن میں 3 ہزار مرین ہیں۔ روئٹرز نے سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ یہ فوجی مشقیں سعودی عرب کے خلاف کسی بھی طرح کی ممکنہ کاروائی کا جواب دینے کے لئے فوج کی آمادگی کا جائزہ لینے کے لئے منعقد ہو رہی ہیں۔
سعودی عرب کا فوجی مشقوں کے انعقاد کا ہدف :
1- ریاض کی فوجی طاقت کی نمائش : حالیہ فوجی مشقوں کا سب سے اہم ہدف، سعودی عرب کی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ موجود وقت میں سعودی عرب کو اپنے علاقائی حریفوں پر سمندری برتری سمیت اپنے اہداف کے حصول اور اسی طرح سمندی شعبے میں اپنی فوجی مہم کو وسیع کرنے کے لئے بحریہ، زمینی اور فضائیہ کے شعبے میں اپنی فوجی طاقت کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔
2- سمندری برتری : اس بات کے مد نظر کہ سعودی عرب نے بڑی مقدار میں مختلف ہتھیار برآمد کئے ہیں اور چونکہ یہ تمام امکانات اور انسانی طاقت کرایہ کی ہیں، اسی لئے وہ خلیج فارس کے جنوبی علاقوں کی آبی سرحدوں پر فوجی برتری کی تلاش میں ہے۔ بہرحال سعودی عرب کے سامنے مستقبل میں جو چيز خطرہ پیدا کر سکتی ہے وہ بحری خطرہ ہے جس پر آج سعودی عرب خاص طور پر توجہ دے رہا ہے۔
3- خلیج فارس اور آبنائے ہرمز جیسے اہم علاقوں کا زیر نظر ہونا :
سعودی عرب اس فوجی مشق سے یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بھی طرح کے خطرے کا سخت جواب دے گا۔ سعودی عرب کی تیل کی زیادہ تر برآمد اور اس ملک کی اقتصادی شہرگ خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں واقع ہے۔ اس علاقے میں ہر طرح کی کشیدگی، سعودی عرب کی اقتصادی سیکورٹی کے کمزور ہونے اور اس کے نتائج اس ملک کی سیاسی سیکورٹی پر مرتب ہونے کا سبب بنے گی۔ اسی طرح یمن کی تحریک انصار اللہ کے اہم کھلاڑی میں تبدیل ہونے اور اسی طرح باب المندب جیسے اہم علاقوں پر تحریک انصار اللہ کے قبصے اور اسی طرح گزشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے جنگی جہاز کو نشانہ بنائے جانے کے بعد ریاض یہ پیغام دینے کے درپے ہے کہ انصار اللہ کی جانب سے سعودی عرب کی کشتیوں پر حملہ کرنے کی صورت میں ریاض سخت جواب دے گا۔
نتائج :
1- علاقائی سطح پر کشیدگی پھیلانا: سعودی عرب ایسی جگہ پر فوجی مشقیں انجام دے رہا ہے جو اس ملک کی آبی سرحدوں سے کافی فاصلے پر ہے۔ اس موضوع کو ریاض اور ایران سمیت اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے سبب کے طورپر دیکھا جا سکتا ہے۔
2- سعودی عرب میں تنہا یہ فوجی مشقیں کرنے کی توانائی نہیں تھی۔ اس بنا پر امریکا اور بعض صیہونی میڈیا کے مطابق اس فوجی مشق میں امریکا اور صیہونی حکومت شریک ہے۔ یہ فوجی اتحاد، مستقبل میں جنوبی ایشیا اور خلیج فارس کے ممالک اور ایران کے لئے خطرے کی گھنٹی سمجھی جائے گی۔
3- یہ فوجی مشقیں خلیج فارس کے علاقے کے تمام عرب ممالک اور علاقے کے باہر کے ممالک کے لئے ایک یہ مقدمہ تصور کیا جائے گا۔ موجودہ وقت میں علاقے پر برتری حاصل کرنے کے لغے علاقے کے بعض ممالک کے درمیان پائی جانے والی مقابلہ آرائی کے مد نظر ممکن ہے کہ دیگر عرب ممالک بھی علاقے میں فوجی مشقیں منعقد کریں اور کام کے لئے علاقے کے باہری کھلاڑیوں کی موجودگی ضروری ہے۔
بہرحال یمن اور شام میں سعودی عرب کی علاقائی شکست اور اسی طرح جسٹا قانون کی منظوری کے بعد سعودی عرب علاقائی اور عالمی سطح پر اپنی طاقت کی نمائش کر رہا ہے اور یمن کی تحریک انصار اللہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات کے جنگی جہاز کو منہدم کئے جانے کے بعد سعودی عرب نے اس فوجی مشق سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے وہ ہر طرح کے خطروں کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔ بہر حال یمن کے ایک چھوٹے سے عوامی گروہ نے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی قدرت نمائی کی پول کھول دی اور سعودی عرب کو اس عوامی تحریک کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔