الوقت – بحران شام کے آغاز سے اور جب علاقے کی تمام عرب حکومتیں دہشت گردوں سے لے کر شام کی حکومت کے مخالف تمام گروہوں کی بھر پور حمایت کر رہی تھیں، عمان کے بادشاہ نے شام کی حکومت کی سرنگونی کے لئے مسلحانہ کاروائی کی مخالفت کی تھی اور حکومت عمان نے ہمیشہ بحران شام کے سیاسی حل پر تاکید کی ہے۔ اسی تناظر میں اور خلیج فارس کونسل سے رکن ممالک کے بر خلاف اس ملک نے اپنا سفارتخانہ دمشق میں کھلا رکھا اور اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔
شام کی جنگ داخلی کا سیاسی راہ حل نکالنے کے لئے عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی کی جانب سے دوطرفہ مذاکرات جاری رہے۔ اسی کے ساتھ شام کے وزیر خارجہ ولید معلم کے دورہ مسقط کے ساتھ ہی بحران شام میں عمان کی ثالثی کا مسئلہ سامنے آیا۔ 2015 کے اگست کے مہینے کے شروع میں عرب اخباروں نے دعوی کیا کہ مسقط میں ایران، سعودی عرب اور شام کے وزرائے خارجہ کا سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا اور ایرانی حکام نے شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم کے دورہ تہران کے وقت بحران شام سے نکلنے کے لئے عمان کی جانب سے پیش کئے کئے راہ فرار کی جانب ترغیب دلائی تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمان، باغی گروہ (تحریک ظفار) سے مقابلے کے لئے اپنے تجربات کی بنیاد پر شام کی حکومت کے ساتھ دہشت گرد گروہوں سے مقابے اور ملک کی تمام ارضی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت کی ضرورت کے مشترکہ نکتے پر پہنچی ہے اور شام کے بحران کے لئے شامیوں کے مد نظر اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ دوسری جانب شام اور عراق میں دہشت گردانہ کاروائیوں نے دیگر عرب ممالک کی طرح عمان کی سیکورٹی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس ملک کو بحران شام کے دونوں فریق کے مذاکرات کی میزبانی پر مجبور کیا تھا لیکن بحران شام کے حوالے سے علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان جو مذاکرات اور گفتگو ہوئی اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ شام کے صدر بشار اسد اور شام کی اگلی حکومت کے بارے میں تمام فریق میں اختلافات بدستور جاری ہیں۔
شام کی جنگ میں عملی طور پر کود پڑنے والا ماسکو، شام میں اقتدار کی منتقلی میں بشار اسد کے کردار پر تاکید کرتا ہے اور زور دے کر کہتا ہے کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ اس ملک کے عوام کو ہی کرنا ہوگا لیکن واشنگٹن نے کہا ہے کہ وہ بشار اسد کو صرف کچھ مدتوں کے لئے ہی برداشت کر سکتا ہے جبکہ جرمنی نے کچھ مدت کے لئے بھی بشار اسد کے اقتدار میں رہنے کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی دلیل ہے کہ بشار اسد کی وجہ سے ہی جرمنی میں پناہ گزینوں کا ریلا آیا ہے۔ اتنے شدید اختلافات سے اس حقیقت کا پتا چلتا ہے کہ بحران شام بہت ہی پیچیدہ ہے اور اس میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے تمام ممالک کے لئے بہت زیادہ پریشانیاں ہیں اور عمان بھی ایران کے ایٹمی مسئلے اور بحران یمن میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے مد نظر اس قانون سے مستثنی نہیں ہے۔
ایک طرف شام اور روس کے جنگی طیاروں کے دہشت گردوں کےٹھکانوں پر شدید حملوں کے ساتھ شامی فوج کی خاص طور پر حلب اور اس کے اطراف میں حالیہ کامیابیاں اور دوسری جانب بحران شام کے حل کے لئے سیاسی کوششوں کے تیز ہونے سے جس کے تحت شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم کی اپنے عمانی ہم منصب اور ماسکو میں بشار اسد کی اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کی گونج تیز ہوگئی ہے اور شام کے بارے میں مصر اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات اور دنیا کے زیادہ تر ممالک کی جانب سے بحران شام کے سیاسی حل میں دلچسپی نے آل سعود اور دہشت گردوں کے دوسرے حامیوں کے لئے عرصہ حیات پہلے سے زیادہ تنگ کر دیا ہے۔
ایران کے خلاف سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا شدید بیان اور سعودی میڈیا کی جانب سے ایران اور حزب اللہ لبنان کو برا بھلا کہنا، داعش تکفیری گروہوں کے ٹھکانوں پر روس کے جنگی طیاروں کے حملے کے بعد اس گروہ کا نام سعودی میڈیا سے حذف ہونا اور داعش اور نصرہ فرنٹ کے بجائے مخالفین لفظ کا استعمال اس بات کی علامت ہے کہ شام میں آل سعود اور اس کے اتحادی بند گلی اور ایسی دلدل میں پھنس چکےہیں جس سے نکلنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔