الوقت - روس کی اسپیشل فورس پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت کرنے کے لئے پاکستان 23 ستمبر کو پاکستان پہنچ گئی۔ روسی فوج کے پاکستان پہنچنے پر اس ملک کے اعلی فوجی افسروں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ شعبے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوه نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ یہ پاکستان اور روس کے درمیان پہلی فوجی مشقیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فوجی مشقیں 24 ستمبر سے شروع ہوں گی اور 10 اکتوبر تک جاری رہیں گی۔ یہ دنوں ملکوں کی بری فوج کا مشقیں ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ روس اور پاکستان کے درمیان مشترکہ فوجی مشقیں ایسی حالت میں منعقد ہو رہی ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ دنوں ممالک کے درمیان اختلافات اتنے زیادہ کشیدہ ہوگئے کہ دونوں ممالک نے سرحد پر اپنی فوجوں کو الرٹ کر دیا۔ میڈیا حلقوں میں تو دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کی باتیں بھی ہونے لگیں۔ پاکستان کے مشہور صحافی میر حامد نے ہندوستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پر پاکستان کے جنگی طیارے پرواز کر رہے ہیں۔
گلگت اور اسکردو کے علاقے میں جانے والی تمام پروازوں کو معطل کر دیا گیا اور ہندوستان کی کنٹرول لائن کے نزدیک پاکستان کے جنگی طیاروں نے پراوازیں کیں۔ پاکستان کے جنگی طیاروں نے اسی طرح اسلام آباد-لاہور ہائی وے پر بھی پروازیں کیں اور فوج نے ان علاقوں میں مشقیں کیں۔ روس اور پاکستان کی حالیہ فوجی مشقوں کو دوستی - 2016 کا نام دیا گیا ہے۔ اس فوجی مشق میں دونوں ممالک کی فوجیں دو علاقوں میں اپنی جنگی مہارتوں کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پہلے پاکستان کے شمال مغربی علاقے گلگت بلتستان میں رتو میں ہائی ایلٹی ٹیوڈ اسکول جبکہ بعد ازاں خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان میں چیراٹ میں مشقیں ہوں گی۔
در ایں اثنا پاکستان نے اس فوجی مشق کو اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے پاکستان پر اس طرح کی فوجی مشقیں ان علاقوں میں منعقد ہو رہی ہیں جن پر دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پایا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے ہندوستانی حکام نے بارہا اس حوالے سے ماسکو کے حکام کو اپنے اعتراض سے آگاہ کرایا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کا بھی کہنا ہے ماسکو کو ہر اس قدم سے پرہیز کرنا چاہئے جو ہندوستان کے سیکورٹی مفاد کو نقصان پہنچا سکتے ہوں۔ ہندوستانی حکام اور اس ملک کی میڈیا کی تشویش پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کو اس بارے میں تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مشقیں کبھی بھی ان علاقوں میں منعقد نہیں ہوں گی جن پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ پہلی بار روس کی فوج کے کمانڈر جنرل اولیگ سالوکوف نے رواں سال کے شروعات میں کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں منعقد ہوں گی۔ یہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ روس، ہندوستان کا ایک قدیمی ساتھی اور اتحادی تصور کیا جاتا تھا لیکن حالیہ برسوں میں روس نے اپنی اسٹرٹیجی تبدیلی کر دی ہے اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد بھی ماسکو کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
در ایں اثنا 2014 میں پاکستان اور روس کے دفاعی تعلقات اس وقت مزید مضبوط ہوئے جب روس کے وزیر دفاع نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران اسلام اور ماسکو کے درمیان دفاعی شعبے میں کئی معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس کے بعد اگست 2015 میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تیزی لانے کے لئے پاکستان اور روس کے درمیان IM 35 ہیلی کاپٹرز کی خریداری کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس سے پہلے ہندوستان سے اپنے قریبی تعلقات کی وجہ سے روس، پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط نہیں کر رہا رہا تھا لیکن سرد جنگ کے برسوں میں ایک دوسرے کے مخالف پاکستان اور روس نے علاقائی مسائل میں تعاون کے علاوہ اپنے اقتصادی اور فوجی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے تعاون کے نئےباب کا آغاز کیا ہے۔
ہندوستان کی حکومت نے بھی جنوبی ایشیا کی حالیہ صورت حال کے مد نظر خود کو امریکا اور صیہونی حکومت سے نزديک کیا ہے اور پاکستان نے بھی چین کے ساتھ تعاون بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ روس بھی یوکرین کے بحران کے بارے میں امریکا اور یورپ سے ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے پاکستان اور چین کے ساتھ تعاون کو مزید بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔