الوقت - فرانس کے صدر نے كیلے شہر میں واقع پناہ گزین کیمپ کو ختم کرنے اور اس ملک میں اس طرح کے کسی بھی کیمپ کے قیام کے منصوبے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسوا اولاند نے "كیلے" کے قریب واقع 'جنگل' کے نام سے بدنام کیمپ کے دورے پر جانے سے دو دن پہلے سنیچر کو یہ بیان دیا۔ اس کیمپ میں 7000 سے 10000 کے درمیان پناہ گزین رہتے ہیں۔ فرانسیسی صدر کے اس قدم سے جنگل کیمپ سے کم از کم 1000 نابالغ بچوں کو اپنا انتظام خود ہی کرنا پڑے گا۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ فرانس میں کوئی کیمپ نہیں ہو گا، تاکید کی کہ اس کیمپ کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے اور پناہ گزینوں کے لئے ملک میں اورينٹیشن اور استقبالیہ سینٹر بنائے جائیں گے۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ جو لوگ پناہ حاصل کرنے کے لئے عرضی داخل کریں گے ہم ان کا استقبال کریں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن لوگوں کے پناہ کی درخواست قبول نہیں ہوگی انہیں ملک سے باہر جانا ہوگا۔ یہ وہ اصول ہیں جسے وہ لوگ جانتے ہیں۔
فرانسوا اولاند نے کہا کہ ان کا ملک 2016 کے آخر تک اضافی 80000 پناہ گزینوں کو جگہ دے گا۔
اس درمیان یورپ میں پناہ گزینوں کے داخلے کو محدود کرنے کے مقصد سے بہت سے یورپی ممالک کے سربراہوں کا آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس آسٹریا کے چانسلر كرسٹير كرن نے طلب کیا تھا جس میں جرمنی، یونان اور ہنگری سمیت دس ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے بعد ہنگري کے وزیر اعظم وکٹر اوربن نے یہ تجویز پیش کی کہ لیبیا کے ساحل پر پناہ گزینوں کے لئے بڑا شہر بنایا جائے جس کا مقصد افریقی ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے لئے پراسیسنگ کرنا ہوگا۔
واضح رہے ان دنوں شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے شورش زدہ علاقوں میں خاص طور پر شام سے پناہ گزین بڑی تعداد میں یورپ جا رہے ہیں جو یورپ کی تاریخ میں ایک عدیم المثال واقعہ ہے۔
بہت سے مبصر مہاجرت کے اس عمل کے لئے یورپ کے طاقتور ممالک کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ یورپی ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے تشدد زدہ علاقوں میں دہشت گردی اور جنگ کی آگ بھڑکی ہے، جس کے نتیجہ میں لوگ گھر چھوڑ کر جانے پر مجبور ہیں۔