الوقت - ایسی صورت میں کہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جاری ہے ، اس موقع پر ہونے والی کچھ گفتگو اور بحثوں سے ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔
انہیں مسائل میں سے ایک مصر کے وزیر خارجہ کا بیان ہے جس میں انہوں نے کہا کہ بحران شام خاص طور پر دمشق حکومت کی تبدیلی اور اس ملک کی قیادت کے حوالے سے مصر اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔
شام، مصر اور سعودی عرب کے درمیان اختلاف کا مرکز :
مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری، نیویارک میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں مصر کے نمائندے کی حیثیت سے حاضر ہوئے انہوں نے اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کہ شام کے بارے میں سعودی عرب کا موقف شام کی حکومت اور اس کی قیادت کی تبدیلی پر مرکوز ہے لیکن بحران شام کے بارے میں مصر کا یہ موقف ہرگز نہیں ہے۔ سامح شکری نے واضح کیا کہ قاہرہ کا یہ خیال ہے کہ شام کی تبدیلیوں کا نتیجہ تمام پارٹیوں اور تمام شامی عوام کی خواہشات کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل کی شکل میں برآمد ہو۔ مصر کے وزیر خارجہ نے اس سوال کے جواب میں کہ اگر شام کے صدر بشار اسد اقتدار سے ہٹ جاتے ہیں تو ممکن ہے کہ شام کا حال صدام کے بعد عراق جیسا اور معمر قذافی کے بعد لیبیا کی طرح ہو، کہا کہ یہ مسئلہ شامی عوام سے وابستہ ہے، اس موضوع کو کسی خاص شخص کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے اور شام کے بحران کے لئے وقت برباد کریں بلکہ موجود وقت میں تمام فریق کو کسی مشخص راہ حل کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
سعودی عرب کے ساتھ اختلافات کے بارے میں مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری کا یہ بیان ایسی حالت میں سامنے آیا کہ اس سے پہلے ان دونوں ممالک کے حکام نے اپنے اختلاف کو منظر عام پر نہ آنے کی بہت کوشش کی۔ اسی لئے گزشتہ سال جب سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے مصر کا دورہ کیا تھا اس وقت مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں فریق نے یمن، شام، عراق اور لیبیا سمیت دنیا کے تمام اہم مسائل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشترکہ مواقف پر تاکید کی تھی لیکن ان کی جانب سے نامہ نگاروں کے سوالات کے جوابات دیئے جانے سے ہی دونوں فریق کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلافات کا پتا چل گیا تھا لیکن جنرل اسمبلی کے موقع پر مصر کے اس موقف نے واضح کر دیا کہ مصر اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات بدستور باقی ہیں۔
اختلافات کہاں ہیں ؟
در حقیقت کافی عرصے سے سعودی عرب اور مصر کے حکام علاقے میں سیکورٹی تعاون کے باوجود شام کے بارے میں کسی مشترک راہ حل تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ریاض، شام کے بحران کے راہ حل کی حیثت سے بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے پر تاکید کرتا ہے جبکہ قاہرہ کا خیال ہے اگر بشار اسد اقتدار سے ہٹ گئے تو اس ملک میں تکفیری دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں کے پھلنے پھولنے کی زمین ہموار ہو گی اسی لئے بحران شام کو سیاسی طریقے سے حل کیا جائے۔ گزشتہ سال پریس کانفرنس میں مصر کے وزیر خارجہ نے جنیوا میں ہونے والی مفاہمت کی بنیاد پر بحران شام کے حل پر تاکید کی تھی اوراس بارے میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ٹیلیفونی گفتگو کی اطلاع دی تھی تاہم سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے اس بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایک بار پھر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کے اپنے موقف پر تاکید کی۔ ان کا کہنا تھا روس سے رابطے کا ہدف بشار اسد کی حمایت سے روس کو روکنا ہے۔
اختلاف واضح کیوں ہو گئے؟
اختلافات کے واضح ہونے کی دوسری دلیل، مصر کے وزیرخارجہ کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر دیا بیان ہے۔ اس بیان کو شام کی حالیہ تبدیلیوں کے بارے میں سعودی عرب سے مقابلے کے لئے مصر کے واضح موقف کی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے۔ شام کے حالات خاص طور سے حالیہ کچھ مہینوں نے جب حلب میں دہشت گرد فوج کے مکمل محاصرے میں ہے، پوری طرح سے شام کی مرکزی حکومت کے مفاد میں جا رہے ہیں۔ بہرحال شام کی حکومت پہلے سے بہت زیادہ مضبوط پوزیشن میں ہے اور اس کا اعتراف خود شام کے دشمن کر رہے ہیں اور بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کا سعودی عرب کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔