الوقت - ہندوستانی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے سے پندرہ دن سے زیادہ جنگ نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کی وار انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین اجئے ساہنی نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے عروج پر پہنچنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی حکام اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ان میں پاکستان سے 15 دنوں سے زیادہ جنگ کرنے کی توانائی نہیں ہے۔ دوسری طرف پاکستان بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے جنگ شروع ہونے کی صورت میں وہ جنگ تو طویل مدت تک جاری رکھ سکے۔
در ایں اثنا کچھ ہندو انتہا پسندوں اور فوج کے حکام نے وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں انتہا پسندوں کے کیمپ میں گھس کر کاروائی کرنے سمیت سخت کاروائی کو مد نظر رکھیں لیکن بہت سے ہندوستانی تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ ہندوستان میں اس طرح کی توانائی نہیں ہے۔ فرانس پریس کے حوالے سے موصولہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستانی حکام موجود وقت میں پاکستان کے خلاف پانچ طرح کی جنگوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ فوجی اور دفاعی امور کے تجزیہ نگار اجیت ڈوبی نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ہندوستان نے در اندازی کرنے والی فوج کو پاکستان خاص طور پر کشمیر کے علاقے میں تعینات کر دیا ہے۔ موجودہ وقت میں ہندوستان ان فوجیوں سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ ڈوبی کے مطابق، ہندوستان، پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلک کرنے کی کوشش کرے گا اور اس سلسلے میں اس نے اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ موجود وقت ہندوستان کو اپنے اہداف حاصل کرنے کا سنہری موقع ہے۔ در ایں اثنا ہندوستان کے ذرائع ابلاغ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان سے اپنے سفیر کو جلد از جلد واپس بلا لے۔
ہندوستان برسوں سے پاکستان کے بلوچستان علاقے کی آزادی کی تحریک کی خفیہ حمایت کر رہا ہے جس کا ہدف علاقے میں نا امنی برقرار رکھنا ہے۔ ہندوستان کے اس قدم سے علاقے میں فرقہ وارانہ اور قبائلی تنازع شروع ہو گیا ہے لیکن کچھ ہفتے پہلے بڑے عجیب طریقے سے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں واضح طور پر بلوچستان کی تحریک آزادی کے حامیوں کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ہندوستان بلوچستان کی تحریک آزادی کی حمایت کا اعلان کرکے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پرپاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حوالے سے اجیت ڈوبی کا کہنا ہے کہ ہندوستان اس حوالے سے اپنے تمام اثر و رسوخ اور وسائل بروئے کار لائے گا۔ دوسری جانب ہندوستان سفارتی ذریعے سے پاکستان پر ایران کی جانب سے عائد پابندیوں کی طرح پابندیاں عائد کرے لیکن ہندوستان کے اس قدم سے زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اتنی زیادہ سطح پر تجارت نہیں ہوتی کہ ایک دوسرے کے اقتصاد کو خاص طور پر پاکستان کے اقتصاد کو نقصان پہنچا سکیں اور نہ ہی کوئی دوسرا ملک پاکستان پر اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے کو تیار ہوگا۔
ہندوستان اخبار نیو انڈین اکسپریس نے اس بارے میں لکھا کہ اگر ہندوستان صرف اقتصادی لحاظ سے پاکستان پر پابندی عائد کرنا چاہئے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ در ایں اثنا ہندوستان کے ایک اور تجزیہ نگار نے موجودہ حقائق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کا دفاعی سیسٹم زیادہ پشرفتہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کو کبھی بھی جنگ کے آپشن پر غور نہیں کرنا چاہئے اور جنگ کا آپشن منتخب نہیں کرنا چاہئے۔ اجیت ڈوبی نے مزید کہا کہ حالیہ دنوں میں دونوں طرف سے جنگ بندی کی کھلےعام خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ یہ جھڑپیں گرچہ کم مدت میں ہیں لیکن مستقبل میں اس کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔