الوقت - روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ہم وطنوں کے درمیان شامی صدر کی مقبولیت مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہے تاہم مغربی ممالک کا اصرار تھا کہ صدر بشاراسد اب کچھ ہی دنوں کے مہمان ہیں۔
اسپوتنک خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ مغرب کی ترجیح بشار اسد کو حذف کرنا تھی کیونکہ مغربی حکومتوں کو یقین تھا کہ بشار اسد کے ہاتھ سے شام بہت جلد نکل جائے گا اور ان کا انجام بھی قذافی جیسا ہوگا تاہم چھ سال ہو رہے ہیں اور بشار اسد ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ شام کے شہری بشار اسد کو دہشت گردوں سے شام کو نجات دلانے والا مانتے ہیں۔
لاوروف نے کہا کہ کچھ ملک عراق اور لیبیا والی غلطی پھر دوبارہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کھائیں میں پھر گرنا چاہتے ہیں لیکن اب مغربی ممالک کو بھی زمینی حقیقت دکھائی دینے لگی ہے اور وہ سمجھ گئے ہیں کہ حالات بہت پیچیدہ ہو چکے ہیں اور بنیادی ترجیح پر عمل کرنا ضروری ہے اور وہ ترجیح ہے دہشت گردی سے جنگ ۔
لاوروف نے امریکا کے ساتھ شام کے بارے میں ہوئے معاہدے کے سلسلے میں کہا کہ اس تناظر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکا اپنے وعدوں پر عمل کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں اور شام کے اعتدال پسند حکومت مخالفین کو جدا کرے لیکن امریکا دہشت گرد تنظیموں کو بچانے کی کوشش میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے جن تنظیموں کے بارے میں کہا کہ وہ جنگ بندی پر متفق ہیں ان میں سب سے پہلا نام احرارالشام کا ہے جو دہشت گرد تنظیم ہے۔
لاوروف نے کہا کہ ہم امریکا کے ساتھ ہوئے معاہدے کو منظر عام پر لانا چاہتے ہیں لیکن امریکی چاہتے ہیں کہ اسے خفیہ رکھا جائے جبکہ ہم خفیہ سفارتکاری میں یقین نہیں رکھتے۔