الوقت - گزشتہ منگل کو شائع ہونے والے خط کی بنیاد پر ایران اور جرمنی کے درمیان تعلقات کی بحالی، ایران کی جانب سے صیہونی حکومت کی شناسائی اور اس حکومت کو باضابطہ قبول کرنے پر منحصر ہوگئی۔ انگلا مرکل کی حکومت کی حیثیت سے لکھے جانے والے خط میں آیا ہے کہ جب تک ایران، اسرائیل کے وجود کو باضابطہ قبول نہیں کرتا تب تک ایران اور جرمنی کے تعلقات معمول پر آنا ناممکن ہے۔
تابناک خبر رساں ایجنسی کے مطابق، اس خط میں اسرائیل اور جرمنی کی پارلیمانی دوستی کے گروہ کے سربراہ کو خطاب کیا گیا ہے۔ جرمنی کی جانب سے یہ خط اور یہ نامعقول شرط صرف اسرائیل کو باضابطہ طور پر قبول کرنے کے لئے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے جرمن حکومت کا ایک حربہ ہے ۔ اس خط میں اسی طرح ذکر کیا گیا ہے کہ جرمنی کی فیڈرل حکومت ایران کے ساتھ اہم اور ضروری مسائل پر گفتگو میں دلچسپی رکھتی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ بیلڈ میگزین نے جولائی کے مہینے میں رپورٹ دی تھی کہ ملک کے وزیر خارجہ فرانک والٹر اسٹین مائر اور وزیر اقتصاد زیگمار گابریل، ڈاکٹر حسن روحانی کی دعوت پر خزاں کے موسم میں ایران کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پارلیمنٹ میں جرمنی کی گرین پارٹی کے رکن ولکر بک نے انگلا مرکل کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ ایران سے تعلقات بحال کرنے کی غلطی نہ کرے۔
تہران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے برلن کی شرط :
دوسری جانب ایران اور مغرب کے درمیان ایٹمی معاہدے میں موثر اور مہم کردار ادا کرنے والے جرمنی کے وزیر خارجہ اسٹین مائر نے اس سمجھوتے کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اسرائیل کے وزیر خارجہ کی بارہا تنقید کی تاہم یورشلم پوسٹ نے اس برلین میں اس حکومت کے سفارتخانے کے حوالے سے لکھا کہ اسٹین مائر نے ایک انٹرویو میں اشارہ کیا کہ کچھ مسائل رای عامہ میں واضح نہ ہو ان کو پیش کرنا صحیح نہیں ہے اور ان مسائل کو جرمنی کے اتحادیوں اور دوستوں کے سامنے براہ راست پیش کیا جائے نہ کہ میڈیا کے ذریعے۔
ان کے اس بیان کی صیہونی حکومت کے حامی یہودی گروہوں نے مذمت کی اور انہوں نے ایران اور مغرب کے درمیان ایٹمی معاہدے کے کچھ عرصے بعد ہی اس ملک کے وزیر اقتصاد زیگمار گابریل کی سربراہی میں ایران کا دورہ کرنے والے اعلی وفد کے دورے کو منافقانہ قرار دیا۔
جرمنی کی حکومت نے بک کو مخاطب کرکے جو خط لکھا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ جرمن حکام نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے اسرائیل کو باضابطہ قبول کرنے پر مبنی اپنی شرط سے تہران کے حکام کو آگاہ کر دیا ہے اور اسی طرح اسرائیل کے لئے خطرہ ایران کے میزائیل تجربوں کی مذمت کی ہے۔ جرمنی کی حکومت کے اس خط میں اسی طرح ایران میں انسانی حقوق کے مسائل کے موضوع کو بھی اچھالا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کے دورہ حکومت میں بھی انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے۔
ان تمام مسائل کے باوجود ایران اور جرمنی کے درمیان تجارتی صورتحال سے پتا چلتا ہے کہ پابندیوں کے ہٹنے کے بعد جرمنی کی جانب سے ایران ارسال کی جانے والی اشیاء میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
بہرحال صیہونی لابی کی جانب سے پڑنے والے دباؤ کے مقابلے میں مغربی حکومتیں اس طرح کے موقف اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ انگلا مرکل کے خط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جرمنی اور تمام یورپی ممالک ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خواہشمند ہیں اور یہ عمل شروع بھی ہو گیا جس سے صیہونی حکومت بری طرح بوکھلا گئی ہے اسی لئے وہ نئی نئی سازشیں کر رہی ہے۔