الوقت - شام میں سرگرم دہشت گرد گروہ جیش الاسلام کے ترجمان اسلام علوش کو اسرائیلی محقق الیزابتھ سورکوف کے ساتھ انٹرویو کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔
سورکوف نے اپنے فیس بوک اکاونٹ پر تاکید کی کہ علوش کو ان کی اسرائیلی شہریت کے بارے میں پتا تھا۔ انہوں نے جیش الاسلام کے بارے میں متعدد مقالے عبری زبان میں لکھے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علوش کے انٹرویو سے یہ گروہ شام میں مصیب میں پھنس گیا ہے۔ اس انٹرویو پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے اور اسلام علوش پر خیانت کا الزام عائد کیا جا رہاے ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام میں سرگرم بہت سے دہشت گردوں نے اس سے ہمدردی کا اظہارکیا ہے اور اس اسرائیلی خاتون محقق سے اس کے انٹرویو کی تعریف کی گئی۔ علوش نے اپنے انٹرویو میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات، اسرائیل کے ساتھ امن اور شام کی وزارت خارجہ سے متعلق تمام مسائل پر گفتگو کی اور کہا کہ شام کی حکومت کی سرنگونی کے بعد وہ ان تمام مسائل کو حل کریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ میں جیش الاسلام کا نام لواء الاسلام اور اسلام بریگیڈ تھا۔ جیش الاسلام شام میں حکومت کا سخت مخالف گروہ ہے اور مشرقی غوطہ میں اس کا اہم ٹھکانہ ہے۔ شامی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گروہ دمشق پر میزائیل فائر کرتا ہے۔
لبنانی اخبار "الاخبار نے بھی اس انٹرویو پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ بشار اسد کی حکومت کے خلاف صیہونی- امریکی سازش کا پختہ ثبوت ہے۔ اسرائیل کی اس خاتون محقق نے یہ انٹرویو جنوبی ترکی میں لیا تھا۔ اس انٹرویو میں علوش نے شام میں بحران کے خاتمے کے لئے سیاسی راہ حل کے حصول پر ناامیدی کا اظہار کیا ۔ اس نے حزب اللہ لبنان کے خلاف بھی زہر اگلا تھا۔