الوقت – عراق میں فوج اور رضاکار فورس کی کامیاب کاروائیاں اور ملک کے کئی شہروں کو داعش کے دہشت گردوں کی آزادی اور بعض ممالک کی مخالفتوں اور رضاکار فورس کے دوستوں پر عائد ہونے والے والے الزامات کے مد نظر موصل سٹی کی مہم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ الوقت نے رضاکار فورس کے ترجمان ابو جعفر الاسدی سے گفتگو کی، پیش ہیں اس کے کچھ اقتباسات :
الوقت - خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے فلوجہ میں عراقی رضاکار فورس کی جانب سے اہل سنت کے اغوا، قتل عام اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق جو دعوی کیا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟
ابو جعفر اسدی : ہمارے پاس ہزاروں ثبوت موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ رضاکارفورس نے فلوجہ اور الصقلاویہ شہر کی آزادی کی مہم میں عام شہریوں خاص طور پر بوڑھوں، خواتین اور بچوں کی انسانی امداد کی تاہم گرفتاریوں کا جو مسئلہ ہے وہ صوبہ الانبار کی پولیس سے متعلق ہے۔ کچھ افراد نے رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا جبکہ کچھ مشتبہ افراد کو بعد میں پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا تھا۔ کچھ افراد مہم شروع ہونے کے بعد تک شہر میں باقی رہے اور ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام تھا اور وہ سیکورٹی اہلکاروں کے نزدیک مطلوب تھے۔ رضاکار فورس نے کسی بھی شخص کو ایک لمحے کے لئے بھی گرفتار نہیں کیا اور ان کی مہم، پناہ گزینوں کی مدد، ان تک انسانی امداد پہنچانے اور ان کو محفوظ مقامات تک پہنچانے تک ہی محدود تھی۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے رضاکار فورس کر عائد کئے جانے والے تمام الزامات بے بنیاد ہیں ۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے دعوی کیا تھا کہ اب تک 700 سے زیادہ سنی جوان لاپتہ ہیں جبکہ فلوجہ کی آزادی کو دو مہینے سے زیادہ کا وقت ہو گیا ہے۔ اس خبر رساں ایجنسی نے دعوی کیا تھا کہ فلوجہ سے فرار کرتے ہوئے 66 سنیوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ 1500 کے حقوق کو پائمال کیا گیا۔ یہ تمام الزامات رضاکار فورس پر عائد کئے گئے تھے۔
ان دعوؤں کے بارے میں اسدی کا کہنا تھا کہ الصقلاویہ علاقے سے لاپتہ 700 افراد کا جو مسئلہ ہے اس کے بارے میں تحقیقات کے لئے وزیر اعظم حیدر العبادی نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ یہ تحقیقاتی کمیٹی تقریبا ایک مہینے پہلے ہی تشکیل پا چکی ہے۔ در حقیقت 700 افراد لاپتہ نہیں ہیں بلکہ 600 افراد کے لئے لا پتہ ہونے کی اطلاع ہے تاہم مغربی ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاست دانوں کی جانب سے اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دی جا سکے۔
عرب اور کچھ غیر ملکی میڈیا نے بھی سیاست دانوں سے بڑھ کر اس مسئلے کو ہوا دی اور رضاکار فورس کو شیعہ مسلح گروہ کا نام دیا جو عراق کے سنی مسلمانوں کے حقوق کو پائمال کر رہے ہیں؟
اس حوالے سے اسدی نے کہا کہ رضاکار فورس، ملک کی فورس ہے یہ باضابطہ فورس ہے جس کو حکومت نے قبول کیا ہے، یہ کسی ایک فرقے سے متعلق نہيں ہے۔ رضاکار فورس میں 25 ہزار سنی جنگجو بھی شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں رضاکار فورس میں 19 فیصد سنی جوان شامل ہیں جن میں موصل اور دیگر سنی اکثریتی علاقوں کے جوان بھی شامل ہیں۔
الوقت : عراق میں جنگ میں کامیابی کے ساتھ ہی رضاکار فورس پر ہونے والے حملوں پر آپ کا رد عمل کیا ہے ؟
اسدی : ان حملوں کے کچھ اسباب ہیں جن میں سے اہم سیاست دانوں اور غیر ملکی میڈیا کی جانب سے شروع ہونے والا ہے۔ رضاکار فورس کر نشانہ بنانے کا مقصد، ملک کی طاقتور فورس اور کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرنے والی فورس کو نشانہ بنانا ہے۔ اس کا ہدف طاقتور اور ملک کے اہم فوج کو کمزور کرنا ہے تاہم عراقی عوام دشمنوں کی تمام سازشوں کو اپنے اتحاد سے ناکام بنا دیں گے۔