الوقت - بہت ہی کم لوگوں کو پتا تھا کہ 24 نومبر 2015 کو ترکی جانب سے روس کے جنگی طیارے سوخوئی-24 کو مار گرائے جانے اور اردوغان اور پوتین کے درمیان لفظی جنگ کے عروج پر پہچنے کے صرف سات مہینے بعد ایک اردوغان کے ماسکو دورے کی شکل میں بڑی تبدیلی کا مشاہدہ کیا جائے گا اور اس دورے کے دوران ایک دوسرے سے دوست کہہ کر خطاب کریں گے۔
اردوغان کے ماسکو دورے کو متعدد لحاظ سے اہمیت کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔ جولائی کے مہینے میں ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد اردوغان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔ اس فوری دورے سے پتا چلتا ہے کہ ترکی میں حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی علاقے کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر رہی ہے اور وہ روس کے تعاون سے علاقائی بحران کو حل کرنے کے درپئے ہے۔ در ایں اثنا سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں مستقبل میں کیا تبدیلیاں رونما ہونے والی ہے۔ کیا ترکی اب مغرب کا کارڈ نہیں کھیلے گا؟ کیا مغرب کے ساتھ اتحاد کرکے ترکی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے؟
شامی کرد اور روس کی حمایت:
شام کی تبدیلیوں میں سب سے اہم پہلو جس نے ترکی کی حساسیت اور تشویش میں اضافہ کر دیا ہے، اس ملک کے کردوں کی سرگرمیاں ہیں۔ ترکی کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ کرد سیاسی اور کسی بھی لحاظ سے متحد ہوں، وہ عراقی کردستان کی طرح اپنے پڑوس میں کردیوں کو متحد نہیں دیکھ سکتا ہے اور اس کو اپنے قومی مفاد کے لئے ریڈ لائن قرار دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرامن سیاسی حل کے لئے کردوں کی پی کے کے کے ساتھ ترک حکومت کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے جس کی وجہ سے ترکی میں رہنے والوں کردوں میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مغرب پر دباؤ :
میں حالیہ دنوں میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت اور وسیع پیمانے پر فوج، تعلیمی اداروں اور حکومت اداروں سے حکومت مخالفین کو نکالنے اور بڑی تعداد میں فتح اللہ گولن کے حامیوں کی گرفتاریاں ہوئی۔ ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ترکی میں 47 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس پر مغربی ممالک اور انسانی حقوق کے اداروں کا وسیع رد عمل سامنے آیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بغاوت کے بعد ترکی کی جیلوں میں مخالفین کو اذیتیں دئے جانے کی اطلاع دی ہے۔ اس ادارے کا کہنا ہے کہ جیل میں بند افراد کو وکیل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور ان کو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ ان کو کس جرم میں سزا دی گئی ہے۔
ترکی کی اقتصادی ضرورتیں :
ترکی کے مسائل کے زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 2003 سے اب تک جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی بر سر اقتدار ہے اس کی اہم وجہ ملک کا بہتر اقتصاد ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس ملک کے عوام اردوغان کے حامی ہیں اور انہوں نے سڑکوں پر نکل کر فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیا۔ یہاں پر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ ترکی کی حکمراں جماعت نے ملک کے متوسط اور محروم طبقے کے اقتصاد کو مضبوط کیا ہے اور اسی لئے زمینی سطح پر یہ پارٹی بہت مضبوط ہے۔ خبروں کے مطابق ترکی کے اقتصادی حالات اتنے زیادہ اچھے ہیں کہ یہ ملک دنیا کی 17ویں اقتصادی طاقت بن کر سامنے آیا ہے لیکن ترکی کی جانب سے روس کے جنگی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد روس نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں ۔ اس پابندی سے پہلے تک روس اور ترکی کے درمیان 30 ارب ڈالر کا لین دین ہوتا تھا لیکن پابندی کے بعد یہ سطح 10 ارب ڈالر سے بھی نیچے پہنج گئی۔
اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ترکی کا سیاسی مفاد یہ ہے کہ سب سے پہلے توانائی، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے تعلقات پھر سے بحال ہوں اور علاقائی تبدیلیوں اور تعلقات کی بہتری کے لئے اپنے مفاد کو آگے بڑھانے کے لئے مغرب پر دباؤ ڈالنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔