الوقت - شہر حلب کی جھڑپیں نئے مراحل میں داخل ہوگئيں ہیں۔ مزاحمت کار فورس جو اس سے پہلے فروری 2016 میں حلب کے مغربی حصے کا محاصرہ کرنے میں کامیاب رہی تھی، گزشتہ دنوں دہشت گردوں ایک تنہا سپلائی کے راستے پر قبضہ کرکے اس شہر کے مشرقی علاقے کا بھی مکمل محاصرہ کر لیا ہے۔ شام کی فوج اپنے اتحادیوں کے ساتھ گزشتہ جمعے کو شمالی حلب کی جانب کچھ کیلومیٹر کے علاقے تک پیشرفت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ سڑک جو کاستیلو کے نام سے مشہور ہے، شمالی اور مشرقی حلب میں موجود دہشت گردوں کے لئے ترکی کی آنے والی امداد اور سپلائی کا تنہا راستہ ہے۔
اس راستے پر فوج کے قبضے کی وجہ سے شمالی اور مشرقی حلب کے علاقے دوسرے علاقوں سے کٹ گئے اور اس سے سے وہ بھی پوری طرح شامی فوج کے محاصرے میں آگے۔ شام کی فوج نے تقریبا دوہفتہ پہلے اس شاہراہ پر قبضہ کرنے کے لئے اپنا آپریشن شروع کیا تھا اور اس نے ان علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے شدید نقصان پہنچا کر بہت تیزی سے الملاح فارمز کے علاقےکو اپنے قبضے میں کر لیا۔ یہ علاقہ تین فارمز پر مشتمل ہے میانی، شمالی اور جنوبی اور یہ تینوں ایک دوسرے سے متصل ہیں اور یہ تینوں ہی علاقے شمالی حلب کا اہم اسٹرٹیجک علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کامیابی کے بعد شام کی فوج اور عوامی رضاکار فورس و مزاحمت کار شہر حلب کی جانب جانے والی امداد رسانی کی شاہراہ گولہ بارود سے حملہ کرنے بعد بند کرنے میں کامیاب رہے۔ دوسرے الفاظ میں شام کی فوج اس سپلائی کے راستے کو بند کرنے میں کامیاب رہی جس سے حلب میں داعش کے لئے رسد جاتی تھی۔ بی بی سی نے باغیوں کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ شام کی سرکاری فوج کی پیشرفت اس معنی میں ہے کہ کوئی بھی حلب کے مشرقی علاقے میں داخل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی نکل سکتا ہے۔ حلب بحران شام کے شروع ہونے سے پہلے تک اس ملک کا سب سے بڑا شہر سمجھا جاتا تھا اور اسی لئے یہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا، اسی لئے اس شہر پر قبضے کے لئے ہونے والی جنگ، مادر جنگ کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی اس شہر پر پوری طرح قبضہ کرنے والا فریق شام کی جنگ میں میدان مار لے جانے والا فریق ہوگا۔ مزاحمت کار فورس انے اسی طرح فروری 2016 میں حلب کے دو شیعہ آبادی والے علاقے نبل اور الزہراء کا کئی برسوں سے جاری محاصرہ توڑنے کامیاب رہی تھی۔ بحران شام کے آغاز سے ہی یہ دونوں علاقے نبل اور الزہرا داعش کے دہشت گردوں کے مکمل محاصرے میں تھے لیکن ان شہروں کے عوام کی مزاحمت کی وجہ سے دہشت گرد ان علاقوں میں گھسنےمیں ناکام رہے ۔ دہشت گردوں کے مارٹر اور میزائیل حملے سے ان دونوں شہروں کے بہت سے لوگ شہید ہوئے جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
بحیریہ روم میں روسی جنگی بیڑا
شام میں جنگی حالات کی تبدیلی کے ساتھ ہی وائٹ ہاوس نے اعلان کیا کہ روس اور امریکا کے سربراہ اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ شام میں دہشت گردوں سے کس طرح جنگ کی جائے۔ اس سے پہلے امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے ایک باخبر ذرائع کے حوالے سے دعوی کیا تھا کہ پینٹاگن نے شام کے حوالے سے روس کی فوج کو خصوصی تجاویز دیں ہیں۔ جس طرح سے اس امریکی عہدیدار نے دعوی کیا تھا اور کسی بھی روسی حکام نے اس کی تردید نہیں کھی تھی، امریکیوں نے وعدہ کیا تھا شامی فضائیہ کی ناکامی اور واشنگنٹن کے حمایت یافتہ شامی حکومت کے مخالفین پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں وہ روس کی فضائیہ کو بمباری کرنے کے لئے دقیق اطلاعات فراہم کرے گا۔ در ایں اثنا روس کی میڈیا نے بھی اطلاع دی کہ بحیرہ احمر میں ملک کا سب سے بڑا جنگی بیڑا روانہ کر دیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بحیرہ احمر میں روانہ کئے جانے والے بیڑے سے دہشت گردوں کے ٹھکانے پر پر فضائی حملے کئے جائیں گے۔ فاکس نیوز ایجنسی نے ماسکو کی اس کاروائی کو واشنگٹن کے لئے روس کا براہ راست رد عمل قرار دیا ہے۔