الوقت - فلسطین، یہ مقدس سرزمین مسلمانون اور عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیاں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ بیت المقدس ایک ایسا شہر ہے جس کی عظمت ادیان الہی سے وابستہ ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بعثت کے 13 برسوں میں اور پھر مدینہ ہجرت کرنے بعد 17 مہینوں بعد تک مسجد الاقصی کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ پیغمبر اسلام کی پیروی کرتے ہوئے تمام مسلمان بھی مسجد الاقصی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد بیت المقدس تیسرا مقدس شہر ہے۔ ایک اور لحاظ سے مسجد الاقصی مسلمانوں سے اہمیت رکھتی ہے کیونکہ مسجد الاقصی سے ہی پیغمبر اسلام معراج پر گئے تھے اور وہاں انہوں نے آسمانوں کی سیر کی تھی۔ پیغمبر اسلام کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی لے جایا گیا تھا۔ اسلامی مساجد میں ایک اہم مساجد مسجد الاقصی ہے۔ موجود وقت میں صیہونیوں کے ذریعے مغربی ملکوں کی حمایت سے اس مسجد پر غاصبانہ قبضہ ہے اور یہ چيز مسئلہ فلسطین کو اہمیت فراہم کرتی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ 1917 میں اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے برطانوی صیہونی فیڈریشن کے سربراہ لارڈ روچیلڈ کو خط لکھا جس میں فلسطین میں صیہونیوں کے لئے ایک حکومت کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا تھا۔ آخرکار 1948 میں صیہونی حکومت تشکیل پاگئی اور اس کے بعد سے عربوں اور اسرائیل میں کئی جنگیں ہوئیں جن میں عرب ممالک کو شکست کا سامنا ہوا۔
اسرائیل سے شکست کھانے کے بعد دھیرے دھیرے عرب ممالک نے اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔ جب یہ ہوا تو فلسطین کے عوام اپنی مادر وطن کو صیہونیوں کے جنگل سے آزاد کرانے میں یک و تنہا رہ گئے۔ ابھی وہ اسی فکر میں مبتلا تھے کہ ہماری مدد کون کرے گا اللہ کےفضل و کرم سے ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔ ایران کا اسلامی انقلاب، فلسطینیوں کا سب سے بڑا حامی بن کر سامنے آیا۔ اس انقلاب نے تمام استعماری طاقتوں کی جولیں ہلا کر رکھ دیں۔
حضرت امام خمینی نے اگست 1979 میں ماہ مبارک رمضان میں یہ اہم پیغام دیا۔ میں عرصہ دراز سے غاصب اسرائیل کے خطرے سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا آ رہا ہوں۔ میں تمام مسلمانوں، عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں کو نکیل کسنے کے لئے متحدہ ہو جائيں .....الخ
در حقیقت امام خمینی کی جانب سے یوم قدس کے اعلان اور تمام اسلامی ممالک کی جانب سے اس کو اہمیت دیئے جانے کے سبب یہ مسئلہ عالم اسلام کی ترجیحات میں شامل ہو گیا ہے۔
صیہونیزم کی فکر ایک ایسی فکر ہے جو دین یہود کی تعلیمات سے جدا ہے۔ یہ فکر اور اس سے وجود میں آنے والا کینسر کا پھوڑا، مسلمانوں میں اختلافات کے بیج بو رہا ہے اور اس طرح سے وہ مشرق وسطی پر تسلط کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اسرائیل نے اپنے نحس وجود کے وقت سے ہی لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ اسی لئے آج عراق اور شام سمیت مشرق وسطی میں تکفیری دہشت گرد اپنے مسلمان بھائیوں کو بہیمانہ طریقے سے قتل کر رہے ہیں اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف کوئی بیان تک نہیں دیتے۔ یہ عالم اسلام اور امت مسلمہ کا بڑا المیہ ہے۔ خود کو مسلمانوں کا خلیفہ کہلانے والے نے فلسطین کے حق میں کوئی بھی بیان نہیں دیا۔ آج مسلمانوں کا اتحاد، صیہونی حکومت کو اپنے منصوبے نافذ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لئے غاصب صہیونی حکومت اپنی کھوکھلی طاقت کا مظاہرہ کرنے کےلئے کبھی کبھی مظلوم عوام پر میزائیلوں اور گولیوں کی بارش کر دیتی ہے۔ بہرحال فلسطینیوں نے مزاحمت کا جو بے نظیر نمونہ پیش کیا ہے اس نے ثابت کر دیا کہ آج نہیں تو کل، اسرائیل کا خاتمہ یقینی ہے۔ آمریکا کے ایک تحقیقاتی مرکز "آخری زمانے میں اسرائیل" کے بارے میں لکھا ہے کہ 2025 تک اسرائیل کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امام خمینی نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعے عالمی یوم قدس کا اعلان کیا تاکہ مسئلہ فلسطین پر دنیا کے تمام مسلمان متحد رہیں اور یہ ایک ایسا دن ہے جو مسلمانوں کے اتحاد کے مستحکم ہونے کا سبب بنا ہے۔