الوقت - متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ کے ایک اعلی عہدیدار انور بن محمد قرقاش کے اعلان کے بعد یمن پر سعودع عرب کی جارحیت نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ محمد قرقاش نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یمن کی جنگ ہمارے فوجیوں کے لئے ختم ہو گئی ہے اور ہم سیاسی عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارا اصل مقصد، آزاد علاقوں میں یمنیوں کو ثابت قدم رکھنا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے انخلاء کو ریاض کے ساتھ تعلقات سے ہٹ کر تصور نہیں کیا جا سکتا۔ قرقاش اور ابو ظہبی کے ولی عہد الشیخ محمد بن زاید آل نہیان نے "امارات، اتحاد اور بحران یمن : ضروری فیصلے" عنوان کے تحت منعقد ایک پروگرام میں کہا کہ بحران یمن کا حل، انقلابیوں سے مقابلہ کرکے حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا حتمی حل، پر امن طریقے سے حاصل کیا جائے نہ ٹینک اور ہتھیاروں کے ذریعے۔
مذکورہ گفتگو سے قطع نظر، امارات کے حکام کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کویت میں جاری مذاکرات کی ناکامی کے کیا اسباب ہیں۔ جب ہم یمن کے مسئلے میں سعودی عرب اور امارات کے درمیان بڑھتی خلیج کے اسباب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب کی جانب رجحان رکھنے والے مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی اور متحدہ عرب امارات کی جانب رجحان رکھنے والے سابق وزیر اعظم خالد بحاح کے حوالے سے دونوں ممالک میں کشیدگی پائی جاتی تھی۔ امارات نے حال ہی میں تاکید کی تھی یہ منصور ہادی اپنی حکومت سے زیادہ اپنے عہدے کو لے کر تشویش میں مبتلا ہیں۔
متحدہ عرب امارات کا کہنا تھا کہ صدرارتی عہدہ ان افراد کے حوالے کیا جائے جو جنگ سے دور ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کے امارات نے ریاض سے مشورہ کیا بھی یا نہیں، اس کا نیا موقف اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان علاقوں اور صوبوں میں سیکورٹی نے نفاذ کے لئے فریق مقابل کی کامیابی کے ساتھ ہادی کی ملیشیا کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہے۔ مذکورہ پروگرام میں جس کا عنوان تھا "ضروری فیصلہ" فوجی انخلاء کی بات کی گئي، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال چار مہینے کے فوجی تجربے نے یمن پر قبضہ کرنے کے لئے خلیجی فورس بری طرح ناکام ہوگئی اور کیا عرب اتحاد کی فوج صنعا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ یہ انصار اللہ ہے۔ کیا سابق صدر علی عبد اللہ صالح کو ملک سے نکالنے میں کامیابی حاصل ہوگی۔ کیا جنوبی علاقوں میں جن پر کنٹرول کا پروپيگینڈا کیا گیا ہے، امن و استحکام برقرار کیا جا سکتا ہے؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے یمن پر سعودی عرب یمن میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوگیا، گرچہ وہ کچھ چھوٹے موٹے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
دوسری جانب یمن جنگ میں امارات کی فوج نے قیمتی تجربات حاصل کر لئے ہیں، کبھی یمنی عوام سے مقابلہ کرکے تو کبھی القاعدہ سے مقابلہ کرکے۔ اس کے ساتھ اس نے یمن جنگ میں نقصان بھی بہت زیادہ اٹھایا ہے اس طرح سے صوبہ مآرب میں یمنی فوج اور رضاکار فورس کے حملے میں اس کے 45 فوجی ہلاک ہوئے۔ یہ نقصان امارات کے لئے بہت بڑا نقصان تھا اور اسی لئے اس نے ملک میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ یمن کی جنگ میں کس نے کیا کھویا اور کس نے کیا پایا یہ بات تو اپنی جگہ لیکن سعودی عرب بحاح کو حکومت سے دور رکھنے میں کامیاب رہا جو امارات کی شکست اور سعودی عرب کی کامیابی کی بہترین دلیل ہے۔
یمن کی تقسیم :
یمن پر حملے کی ناکامی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس منصوبے کو فراموش کر دیا جائے جس کی وجہ سے یمن پر حملہ کیا گیا۔ اس منصوبوں میں سب سے اہم یمن کی تقسیم ہے۔ امارات کے وزیر نے اس بات پر تاکید کیا کہ امارات کے فوجی یمن میں خاص طور پر حضرموت اور عدن کے صوبوں میں بدستور تعینات رہیں گيے۔ یمنی حکام کا کہنا ہے کہ عدن میں ایوان صدر اور ائیرپورٹ پر کچھ اماراتی فوجی بدستور تعینات رہیں گے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے سعودی عرب کے مشہور مصنف فہد العوہلی نے جنگ یمن میں امارات کے فوجیوں کے کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد شمال سے جنوبی یمن کو جدا کرنا ہے۔ یمن میں امارات کا مقصد، شمالی یمن سے جنوبی یمن کو جدا کرنا ہے، اس کے لئے اس نے بہت زیادہ بجٹ مخصوص کیا اور بہت زیادہ محنت کی۔ اس کا ایک مقصد عدن کی اسٹرٹیجک بندرگاہ پر قبضہ کرنا تھا۔ بہرحال امارات کے اس اچانک فیصلے نے سعودی عرب سمیت اس کے تمام اتحادیوں کو چھٹکا دے دیا۔ یمن پر حملے سے واضح وہ گیا کہ سعودی عرب چھوٹے موٹے مقاصد کو چھوڑ کر اپنے کسی بھیم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور یہی وجہ ہے کہ یمن کے خلاف چلائے جانے والے آپریشن "عاصفۃ الحزم' کے بارے میں سب یہی کہہ رہے ہیں کہ عاصفۃ الحزم کی ہوا نکل گئی۔