الوقت - ایسے حالات میں کہ جب عراق میں شیعہ جماعتوں کے درمیان اختلاف کی بناپر پارلمینٹ اور حکومتی جلسوں کو بندش اور سیاسی بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ساتھ ہی امریکی حکومت موصل کو فلوجہ شہر سے پہلے آزاد کرانے پر زور دے رہی تھی، عراق نے اہم فیصلہ کرتے کرتے ہوئے ’’فلوجہ آپریشن‘‘ شروع کردیا اوراس مسئلہ سے سیاسی حالات متاثر ہوئے۔ امریکی حکومت نے عراق کی ارضی سالمیت اور خودمختاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ داعش کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرنے کا حق صرف عراقی حکومت کو ہے اور ہمیں اس سلسلے میں عراق کی حمایت کرنی چاہئے۔
موجودہ دور میں بھی آپریشن شروع ہونے کے دو ہفتے بعد آپریشن کا پہلا مرحلہ کامیابی کے مراحل طے کرتے ہوئے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اب اس سلسلے میں وقت اور آپریشن دونوں ہی اہم کردار نبھائیں گے۔ داعش کے دہشت گرد رطبہ جیسے بعض شہروں سے جلد ہی فرار ہونے پر مجبور ہوئی لیکن رمادی جیسے شہر کی آزادی میں عراقی فوج کو مہینوں داعش کے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ قابل ذکر ہے کہ فلوجہ میں کامیابی موصل کی آزادی کی راہ ہموار کرچکی ہے۔
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ فلوجہ آپریشن مذکورہ ذیل لحاظ سے عراق کے سیاسی اور سیکورٹی کے حالات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں:
مذکورہ آپریشن نے عراق کا کھویا ہوا اعتبار لوٹایا اور کافی حد تک سیاسی اور قانونی حالات سازگار بنانے میں کامیاب ثابت ہوا جبکہ مذکورہ بحران اب تک جاری ہے اور اس کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکا ہے لیکن فلوجہ آپریشن سے یہ فائدہ ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ بغیر قومی مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔
عراق میں داخلی بغاوتیں جس کا فائدہ بعثی اور دہشت گرد گروہوں کو حاصل ہورہا تھا کافی حد تک کم ہوگئیں۔ اگرچہ ممکن ہے کہ اگر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا تو دوبارہ یہ خانہ جنگیں شروع ہوسکتی ہیں۔
عراقی سیکورٹی ڈھانچہ مضبوط ہونا اور اسی کے ساتھ حاصل ہونے والی قومی سیکورٹی اس آپریشن کا ایک اہم نتیجہ ہے۔ بعض سنی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود فوج بھر پور طریقے سے پر اس آپریشن میں حصہ لے رہی ہے۔
غیرقانونی سیاسی جماعتوں اور شیعہ حکومت مخالف گروہوں کی کمزوری اس آپریشن کا دوسرا اہم نتیجہ ہے، ایک طرف تو طارق ہاشمی جسے افراد نے اور دوسری طرف عراق میں تعینات سعودی سفیر اور اس کی اتحادی حکومتوں نے فلوجہ آپریشن کو ایک طرح سے فرقہ وارانہ جنگ سے تعبیر کیا جس کا عراقی فوج نے بھرپور جواب بھی دیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات صرف داعشیوں کے مفاد میں ہیں۔
اس آپریشن نے تمام ان سوالوں کا جواب دے دیا کہ جن میں پوچھا جاتا تھا کہ عراق میں حتمی فیصلہ کس کا ہوتا ہے، امریکی حکومت نے یہ اعتراف کرلیا کہ عراقی حکومت کو اپنی آزادی کے سلسلہ میں فیصلہ کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔
قابل ذکر ہے کہ موصل کے سقوط کی بنیادی وجہ عراقی فوج اور وسائل کی کمی نہیں تھی، بلکہ نفسیاتی اور نظریاتی حوصلوں کی کمی تھی، فلوجہ مہم اس کھوئے ہوئے حوصلے کو لوٹانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اس آپریشن کا طولانی ہونا کمزوری ضرور ہے اور دوسری طرف سے آپریشن کے ترجمانوں کی بڑی تعداد اور کمانڈروں کی جانب سے الگ الگ بیانات اور نتائج کا اعلان بہت بڑی کمزوری ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس آپریشن کے نتائج ایک ترجمان اور ایک مرکز سے ہی جاری ہوں۔
فلوجہ میں آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی شام میں فوج نے بھی داعش کے خلاف آپریشن شروع کردیا ہے اور 2014 کے بعد پہلی بار یہ فوج رقہ تک پہنچ چکی ہے، اس آپریشن کے نتائج اس وقت مزید بہتر ہوں گے جب داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف عراق اور شام کے درمیان رابطہ اور ہماہنگی زیادہ سے زیادہ پیدا ہو جائے گی ۔