الوقت - شام، عراق اور لیبیا میں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہونے والی پیشرفت سے پتا چلتا ہے کہ داعش کے دہشت گردوں کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ۔
داعش کا سب سے پہلے قلع قمع عراقی فوج نے موصل سٹی اور الرمادی میں کیا۔ دنیا کے سب سے مضبوط دہشت گرد گروہ کہا جانے والا داعش، عراق میں اپنی آخری سانس لے رہا جبکہ داعش کے نام نہاد دار الحکومت رقہ سے شام کی ڈیموکریٹ فورس کچھ کی کیلومیٹرکے فاصلہ پر ہے اور اسی طرح لیبیائی فورس نے سرت شہر کو داعش کے قبضے سے آزاد کرا لیا۔ خبروں میں بتایا گیا کہ لیبیا کی فورس اور داعش کے دہشت گردوں کے درمیان خونین لڑائی کے بعد فورس کامیاب رہی اور انہوں نے ساحلی شہر سرت کو بازیاب کرانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
اس شہر کو جو بن غازی اور طرابلس سے یکساں دوسرے سرے پر واقع ہے، داعش نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا لیکن اب اس کا کنٹرول دوبارہ فورس کے ہاتھ میں آ گیا ہے۔ اسی طرح فلوجہ کے مرکز سے عراقی فورس چار سو میٹر کے فاصلے پر ہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگلے دو سے تین دن کے اندر فلوجہ میں عراقی پرچم لہرانے لگے گا۔ فلوجہ کی بازیابی کی کاروائی کب ہی کامیاب ہو چکی ہوتی اگر سعودی عرب پرپیگینڈے شروع نہ کرتا۔ فلوجہ شہر پر فوج کے مکمل کنٹرول اور اس شہر کی آزادی میں تاخیر کے حوالے سے سعودی عرب کا کردار اہم تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
در حقیقت سعودی حکام نے فلوجہ شہر کی جانب فوج کی پیشرفت کے آغاز میں ہی حکومت سے مذاکرات کئے تاکہ وہ فلوجہ پر حملے کو 36 گھنٹے تاخیر کر دے اور اسی کے ساتھ فلوجہ شہر میں فوج اور رضاکار فورس کے داخل ہوتے ہی عراق میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان فرقہ وارانہ جنگ کا مسئلہ پیش کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکام کے اس طرح بیانات اور سلوک سے پتا چلتا ہے کہ وہ فلوجہ سے داعش کے جنگجوؤں کو محفوظ طریقے سے نکلنے، طاقت کو دوبارہ جمع کرنے اور شہر فلوجہ پر کنٹرول میں تاخیر چاہتے تھے۔ اس بارے میں دقیق تجزیہ پیش کرنے سے پہلے فلوجہ کا آپریشن شروع ہونے سے پہلے سعودی حکام کے بیانات پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد ہم شہر فلوجہ شہر پر کنٹرول کے لئے زیاض کی فرقہ واریت اور دہری پالیسیوں پر نظر ڈالیں گے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ 20 ہزار سے زیادہ اہل سنت و الجماعت کے لڑاکے رضاکار فورس میں شامل ہيں جبکہ ان میں چار ہزار کی تعداد صوبہ الانبار اور فلوجہ کے شہریوں کی ہے۔ یہ افراد انسداد دہشت گردی کی ٹیم کے ساتھ شہر فلوجہ میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں۔
شامی کرد اور عرب فورس کے اتحاد ایس ڈی ایف نے شام کے سرحدی قصبے منبج کو گھیرے میں لے کر، اس راستے کو بند کر دیا ہے جس کے ذریعہ ترکی سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو رسد پہنچتی تھی۔ رقہ، دریائے فرات کے شمالی کنارے پر واقع شہر ہے جو مشرقی حلب سے تقریبا 160 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس قصبے پر تكفيريوں نے مارچ 2013 میں قبضہ کرلیا تھا اور 2014 میں اسے دہشت گردوں کے انتظامی امور کے کاموں کا مرکز قراردیا گیا تھا۔ رقہ جنگ میں کرد اور کچھ اصل عرب قبائل ہیں۔ اگر کرد عین العرب سے عفرین تک کے علاقے کو اپنے قبضے میں کرنے میں کامیاب ہو گئے یہ ان کے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
لیبیا کی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے داعش کے دہشت گردوں کےساتھ شدید لڑائی کے بعد ساحلی شہر سرت پر کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا گیا ہے۔ یہ ہمارے لئے سب سے بڑی کامیابی ہے کیونکہ عراق اور شام کے باہر سرت داعش کا سب سے مضبوط گڑھ تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے دوبارہ حاصل کرلینا اس بات کی دلیل ہے کہ داعش کے لڑاکے کمزور پڑ رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے جنگی طیاروں نے سرت میں داعش کے ٹھکانوں پر بم برسائے تھے جبکہ بحریہ نے بندرگاہ کی جانب میزائل داغے تھے۔
عراق کے فلوجہ اور شام کے رقہ اور لیبیا کے سرت کے علاقوں میں عراقی، شامی اور لیبیائی افواج کی ایک ساتھ پیشقدمی سے پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں ملکوں کا بحران اپنے اختتامی مرحلے کے قریب پہنچ گيا ہے۔ عراق میں رضاکار فورس الحشد الشعبی نے قبائلی فورسز اور فوج کے ساتھ مل کر فلوجہ شہر کو آزاد کرانے کے آپریشن کا تیسرا مرحلہ کامیابی کے ساتھ شروع کر دیا ہے۔ الحشد الشعبی کی تشکیل عراق کے بزرگ عالم دین اور مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمی سیستانی کے فتوے کے تناظر میں عمل میں آئي تھی اور پھر اس فورس نے بڑی تیزی سے بیجی، جرف الصخر اور تکریت جیسے شہروں کو داعش سے آزاد کرا لیا۔
شام کے رقہ علاقے میں بھی ایسے ہی حالات ہیں اور شامی فوج اور حزب اللہ کے مجاہدین نے، رقہ شہر کی جانب، جسے داعش کا دارالخلافہ سمجھا جاتا ہے، اہم پیشرفت کی ہے اور اس وقت وہ رقہ کے اطراف میں موجود ہیں۔ یہ شہر چار سال سے داعش کے قبضے میں ہے اور اس کی آزادی، طاقت کا توازن مزاحمت کے محاذ اور بشار اسد کی قانونی حکومت کے حق میں موڑ دے گی۔ ان حالات میں عراق اور شام میں بحران جاری رکھنے اور نئے مشرق وسطی کی تشکیل کے خواہاں ممالک کو شکست کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اب شام اور عراق میں سیاسی و فوجی بساط ایران، روس، شام، عراق اور حزب اللہ کے منصوبوں کے مطابق ہی بچھے گی۔