الوقت - واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ظاہری کشیدگی خاص طور سے امریکا کے حالیہ ڈرون حملے کے بعد، اسلام آباد اور انکارا کے درمیان فوجی تعاون بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے اور یہ امکان پایا جاتا ہے کہ امریکہ فوجی تعلقات باقی رکھنے کے لئے کسی تیسرے ملک کا سہارا لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کو پاکستانی رپورٹر ’’فرحان مھدوی‘‘ ایک رپورٹ کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی، اور اسی کے ساتھ ترکی کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی صرف ایک دکھاوا ہے، چونکہ تاریخی شواہد کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان کبھی اس طرح کے مسائل نظر نہیں آتے، واشنگٹن اور اسلام آباد کے مفاد ایک دوسرے سے واسبتہ ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کی نظر میں، امریکہ نے ترکی کو، پاکستان تک فوجی اور غیر فوجی امداد پہنچانے کے لئے منتخب کیا ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تینوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی
کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت نے پاکستان کو ،F-16 جنگی طیارے دینے سے منع کردیا تھا جن کی تعداد 8 ذکر کی گئی تھیں۔
امریکی حکومت اس سلسلے میں 43 کروڑ ڈالر مالی امداد کا وعدہ کرچکی تھی لیکن اوباما نے امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین کا مشورہ مانتے ہوئے اس امداد کو مسترد کردیا۔
اس وقت پاکستان ان جنگی طیاروں کے لئے 70 کروڑ ڈالر دینے پر مجبور ہے لیکن امریکہ کی جانب سے انکار کے بعد روس اور چین سے بھی جنگی طیارے خریدنے کے سلسلے میں گفتگو جاری ہے۔
فائیننشل ٹایمز لکھتا ہے کہ پاکستان F-16 کے بجائے، روس سے FU-35, اور چین سے G-20 جنگی طیاروں کے لئے مذاکرات کررہا ہے۔
دوسری جانب سے اس انکار کے یک ہفتے بعد ہی امریکہ کی سینیٹ کی آرمڈ سروسز (فوجی خدماتی) کمیٹی نے پاکستان کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک نئے امدادی پیکج کی تجویز دینے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
امریکہ کی سینٹ کی آرمڈ سروسز کے چئیر جان مین مک کین کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں امریکہ پاکستان کو 80 کروڑ ڈالر مالی امداد کرے گا۔
افغانستان میں موجودہ جنگ کے بجٹ سے مذکورہ پیکیج تیار کیا جائے گا۔
مذکورہ پیکیج میں سے امریکہ نے اسی کے ساتھ 30 کروڑ ڈالر کو حقانی دہشت گردی تنظیم کے مقابلے کے لئے مقرر کیا ہے۔
کولیشن سپورٹ فنڈ CSF)) کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے بعد امریکہ نے310 کروڑ ڈالر پاکستان کی امداد کی ہے۔
پارلمیٹ ہاؤس آف امریکہ نے دو ہفتہ قبل اس سلسلے میں 90 کروڑ ڈالر کی امداد کا قانون پیش کیا تھا کہ جس میں 45 کروڑ ڈالر حقانی تنظیم کے خلاف خرچ ہونے کی شرط رکھی تھی، لیکن امریکہ کی سینٹ اور مجلس نمائندگان کا بجٹ مختلف ہے۔
امریکہ کے انکار کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ’’ سرتاج عزیز‘‘ نے کہا کہ پچھلے تین مہینوں سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔
ترکی اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات
پچھلے ہفتے ترکی اور پاکستان کے وزرائے دفاع نے اسلام آباد میں ملاقات کے دوران تین آبدوزوں کی مرمت کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے فوجی تعلقات پر زور دیا۔
ترکی کے وزیر دفاع ’’فکری ایشکیک‘‘ نے3 جون کے اسلام آباد دورے پر اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کی۔
ترکی کے حریت ڈیلی نیوز نے آبدوزوں کو نوع’’B90 خالد‘‘ بیان کیا ہے۔
اسی طرح دوسری نیوز ایجنسی یعنی ’’ڈیلی ملیت‘‘ نے رپورٹ دی ہے کہ : ترک وزیر دفاع جلد ہی ایک فوجی سمجھوتے پر دستخط کریں گے لیکن انہوں نے مزید تفصیلات ذکر کرنے سے پرہیز کیا۔
بعض پاکستانی دفاعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے جنگی آبدوزوں کے سیسٹم کی پیشرفت کے لئے خالد آبدوز کے مرمت کی ضرورت ہے۔
فکری نے مزید کہا کے سمجھوتے کا سب سے اہم نکتہ T129 فوجی ہیلی کاپٹرز کی خریداری ہے۔
اسلام آباد نے گزشتہ سال اس ہیلی کاپٹرز کو خریدنے کے لئے اقدامات کئے تھے لیکن امریکہ کی مخالفت کی بناپر AH 1Z خریدنے پر راضی ہوا۔
دوسری جانب سے پاکستان نے ترک ٹینک MBT خریدنے پر بھی اظہار خیال کیا لیکن چونکہ یہ ٹینک نیٹو کے MBT کی برابری کرتا ہے لہذا اس کی قیمت کی ادائگی میں اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ترک کے وزیر دفاع نے پاکستان کے دورے کے درمیان آرمی چیف آف اسٹاف جنرل رحیل شریف سے بھی ملاقات کی۔
اس ملاقات میں جو جنرل کے آفس میں ہوئی دونوں فریق نے فوجی مفادات اور علاقے میں دفاعی تعاون پر زور دیا۔
البتہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکہ میں دانشوروں اور عوام کی جانب سے اس طرح کی مالی امداد کی مذمت ہورہی ہے۔