الوقت - رویٹرز نیوز ایجنسی نے سفارتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے رپورٹ دی ہے کہ ریاض کی جانب سے کسی بھی قسم کے فنڈ بند کرنے کی دھمکی نے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری کو اس بات پر مجبور کیا کہ سعودی عرب کا نام بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک سے نکال دیا جائے۔
بدھ کے روز رویٹرز نیوز ایجنسی نے سعودی عرب کے پس پردہ دباؤ کی خبر دیتے ہوئے کہا کہ ریاض نے اقوام متحدہ کو دھمکی دی ہے کہ اگر سعودی عرب کا نام بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک میں شامل رہا تو وہ اقوام متحدہ کو مالی امداد کرنا بند کردے گا۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون نے ایک انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے صرف ایک دن بعد اپنی گزشتہ رپورٹ کو جس میں پہلی بار سعودی عرب کو یمن میں بچوں کے حقوق پامال کرنے والے ممالک کی بلیک لیسٹ میں شامل کیا گیا تھا، مذکورہ فہرست سے نکال دیا۔
یہ عمل اس وقت انجام پایا کہ جب سعودی عرب نے جنرل سکریٹری پر حملہ کرتے ہوئے یمن کے سلسلے میں پیش شدہ رپورٹ کو غیر حقیقی قرار دیا۔
اقوام متحدہ کی جانب سے سعودی عرب کا نام بلک لیسٹ سے نکالتے ہی انسانی حقوق کے سلسلے میں فعال کمیٹیوں نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بان کی مون ریاض کے سامنے جھکتے ہوئے نظر آئے جبکہ یہ ان کا اس عُھدے پر آخری سال ہے اور اس طرح ان کا اعتبار بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
سفارتی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے رویٹرز کی جانب سے اعلان نہیں ہوا لیکن انہوں نے کہا جنرل سکریٹری کی جانب سے رپورٹ پیش ہوتے ہی خلیج اور عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے فورا ہی بان کی مون کے دفتر فون کے ذریعے حملے شروع کردیئے تھے۔
ایک اور سفارتی عہدے دار نے سعودی عرب کے جانب سے اس عمل کو ایک طرح کی بلیک میکنگ قرار دیا ہے اور کہا ہے انہوں نےاقوام متحدہ کو دھمکی دی ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ فورا ہی سعودی عرب کے علماء کی ایک نشست ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس نشست میں فتوے کے ذریعے اقوام متحدہ کو ایک اسلام دشمن یونین قرار دے دے۔
اس کے باوجود اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندہ’’عبداللہ المعلمی‘‘ کے بقول : ’’ہم کسی بھی طرح کی دھمکی سے پرہیز کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کے سلسلے میں وفادار ہیں‘‘
المعلمی نے کسی بھی قسم کے فتوے کی دھمکی کو بھی مسترد قرار دیا ہے لیکن علما کی نشست کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس نشست میں مذکورہ رپورٹ کی مذمت کرنا چاہتے تھے‘‘
اقوام متحدہ کے اسپیکر اسٹیفن دوجاریک نے کہا کہ ہم نے رپورٹ پیش کرنے سے پہلے سعودی عرب کو اس مسئلہ کی اطلاع دے دی تھی جبکہ المعلمی نے اس بات سے بھی انکار کیا۔
دوجاریک نے مزید کہا کہ سعودی عرب کے علاوہ، اردن، متحدہ عرب امارات اور بنگلادیش کے ساتھ ساتھ، مصر، کویت اور قطر نے بھی رپورٹ پیش ہونے کے بعد بان کی مون کے دفتر سے رابطہ کرتے ہوئے اس پر اپنا ردعمل ظاہر کیا تھا۔
رویٹرز نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں سے کسی نے بھی اس رپورٹ کے خلاف کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے جنگی طیاروں کے ذریعے اب تک تقریبا بارہ سو یمنی بچے مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔
دوجاریک نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ سعودی عرب کا نام بلک لیسٹ سے نکالا جانا وقتی عمل ہے جب تک کہ ہماری تحقیق پوری نہیں ہوجاتی لیکن المعلمی نے اس بات کی بھی تردید کرتے ہوئے کہا یہ وقتی نہیں بلکہ غیرمشروط اور دائمی ہے۔
اس مسئلہ سے آگاہ ایک اور سفارتکار کا کہنا ہے کہ اس بات کا تو یقین تھا کہ سعودی عرب کی حکومت اس سلسلے میں رد عمل ظاہر کرے گی لیکن اس کی امید نہیں تھی کہ جنرل سکریٹری صاحب اتنی جلدی اپنی رپورٹ واپس لے سکتے ہیں۔
ایک اور سفارتی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے مغرب کے زیرنظر مغربی صحرا کو ’’مقبوضہ علاقہ‘‘ قرار دینے سے اقوام متحدہ اور مغرب کے درمیان لفظی جھڑپیں ہوئیں اور سلامتی کونسل نے بھی اس سلسلے میں جنرل سکریٹری کی حمائت سے انکار کرتے ہوئے اس اختلاف کو ہوا دی۔
وہ کہتے ہیں سلامتی کونسل کا پیغام واضح تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنرل سکریٹری کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرو تو سلامتی کونسل ان کا ساتھ نہیں دے گی۔