الوقت - عراق اور سعودی عرب کی حکومتوں نے گزشتہ کچھ دنوں سے فلوجہ مہم کے حوالے سے میراتھن پروپیگينڈا شروع کر رکھا ہے جہاں ایک طرف اپنے تمام وسائل کے ساتھ ریاض فلوجہ کی آزادی کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے وہیں دوسری جانب بغداد ہے جس نے ان ہنگامہ آرائیوں سے مقابلے کے لئے مشرق وسطی کا ایک بن لیا ہے۔
فلوجہ مہم کے خلاف سیاسی اور میڈیا کی ہنگامہ آرائیاں اسی دن سے شروع ہوگئی جس دن وزیر اعظم حیدر العبادی نے فلوجہ کی آزادی کا فرمان جاری کیا۔ میڈیا میں جاری ہنگاموں کا اصل محور اس شہر کے عام شہریوں کی صورتحال ہے۔ بغداد میں تعینات سعودی عرب کے سفیر نے بھی اس نفسیاتی جنگ کو خوب ہوا دی۔ اسی طرح العربیہ اور الجزیرہ جیسے ٹی وی چینلوں اور الشرق الاوسط اور الحیات جیسے اخباروں، سیکڑوں سائٹوں اور سوشل میڈیا پر اس مسئلہ پر خوب گفتگو ہونے لگي۔ میڈیا اور سیاسی حلقوں نے اپنے وسیع حملے رضاکار فورس یا الحشد الشعبی پر مرکوز کر دیا اور یہ دکھانے کی کوشش کی کہ رضاکار فورس کے فلوجہ میں داخل ہونے سے عام شہری ہی نشانہ بنیں گے۔ اس کے بعد فلوجہ میں سعودی خواتین کی موجودگی پر بحث شروع ہوگئی۔ البتہ سعودی حکام نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ عام شہری ہیں یا فلوجہ میں جہاد النکاح کے لئے آئی ہیں۔
اسی کے ساتھ عراق میں ایران کے فوجی مشیروں کی موجودگی کا موضوع بھی میڈیا کی سرخیوں میں تبدیل ہو گیا جو داعش کےجد جہد میں عراقی فوجیوں کے ساتھ ہیں۔ جب معاملہ حد سے زیاد بڑھ گیا اور ایران کے فوجی مشیروں پر مسلسل حملے ہوتے رہے تو عراق کی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے ایرانی فوجیوں کی حمایت میں متعدد بیان دے ڈالے۔ عراق کی سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کے رہنماوں نے ملک کے داخلی امور میں مداخلت کرنے کے الزام میں بغداد میں سعودی سفیر ثامر السبھان کو ملک سے اخراج کرنے تک کا مطالبہ کر دیا۔ عراق کی وزارت خارجہ نے بھی بغداد میں تعینات سعودی سفیر کے بیانات پر رد عمل ظاہر کیا۔، اسی طرح حیدرالعبادی کی حکومت نے بھی اعلان کیا کہ وہ ان ٹی وی چینلز اور میڈیا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرے گی جنہوں نے فلوجہ میں داعش کے خلاف جنگ میں جھوٹ کا پلندہ تیار کیا۔ عراقی پارلیمنٹ کی ایک خاتون پارلیمانی ممبر اور ارادہ نامی سیاسی جماعت کی سربراہ حنان الفتلاوی نے بھی سعودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے سفیر کو سفارتی اصول و ضوابط سکھانے کے لئے ایک کلاس رکھے۔ اسی طرح البدر دھڑے کے سربراہ قاسم الاعرجی نے سعودی عرب کے سفیر کے بارے میں کہا کہ ان کی ذمہ داری عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دینا ہے۔ ان سب کے باوجود اور حکومت بغداد کی جانب سے بارہا رد عمل کے باوجود وزیر اعظم حیدر العبادی نے بارہا فلوجہ کے عام شہریوں کی حمایت پر تاکید کی لیکن علاقے کے سعودی اور بعثی نیز کچھ عراقی میڈ کے مسلسل حملوں کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ حیدر العبادی ایک اعلی وفد کو عرب ممالک کے دورے پر بھیجنے کو مجبور ہوگئے۔ عراقی وفد قاہرہ، کویت، امان و مسقط کے دورے پر گیا۔ اس وفد کی سربراہی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری اور وزیر دفاع خالد العبیدی کر رہے ہیں۔ اس وفد کی گفتگو کا اہم مرکز فلوجہ کی مہم تھی ۔ عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے عرب ممالک کے رہنماؤں کے نام اپنے پیغام میں فلوجہ کے شہریوں کی جان کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔ عراق کے وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے قاہرہ میں ایک پریس کانفرنس میں ایرانی فوجی مشیروں کی عراق میں موجودگی سے وابستہ ہنگامہ آرائیوں کو ختم کرنے کے لئے کہا کہ امریکی فوجی مشیروں اور دوسرے ممالک کے فوجیوں کی طرح جو عراقی فوجیوں کی مدد کر رہے ہیں، ایرانی فوجی بھی عراقی فوجیوں کو مشورے دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی فوجی مشیروں کی عراق میں موجودگي مکمل طور پر حکومت عراق کی اطلاع اور آگاہی سے ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ فلوجہ آپریشن کے خلاف سعودی عرب کے حملے جتنے بھی شدید ہو رہے ہیں، عراقی حکام کے لہجےبھی تند ہوتے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے کہ پیر کو عراقی پارلیمنٹ میں خارجہ تعلقات کے کمیشن کے رکن اور پارلیمانی ممبر عبد الباری زیباری نے شدید لہجے میں تاکید کی کہ عراق کو سعودی عرب کی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔
بہرحال سعودی عرب کی حکومت مسئلہ سے دستبرداری کے لئے تیار نہیں ہے اور کسی بھی طرح سے وہ آپریشن میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی عرب کا یہ اصرار اتنا زیادہ مضحکہ خیز ہو گیا کہ پیر کو بغداد میں تعینات امریکی سفیر نے سعودی عرب کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے عام شہریوں کی حفاظت کے حیدر العبادی کے وعدے کی حمایت کی اور الحشد الشعبی گروہ کو محترم و مکرم گروہ قرار دیا اور کہا کہ کوئی بھی ثبوت نہیں ملا ہے جس سے پتا چلے جنگ فلوجہ میں شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ اسٹورٹ جونز نے ایران یا الحشد الشعبی یا رضاکارفورس کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایران یا الحشد الشعبی کے درمیان کوئی خفیہ چيز نہیں ہے۔ سعودی اور بعثی میڈیا یہ ہنگامہ بھی کرنے لگی کہ امریکی سفیر نے رضاکار فور کے کچھ کمانڈروں سے ملاقات کی ہے۔ ابھی فلوجہ سے متعلق سعودی عرب کے پرپیگینڈے کا سلسلہ جاری ہی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس خبر ہنگامہ مچا دیا کہ داعش نے ایک چھوٹے سے بچے کو بم لگا کر اڑا دیا۔ اب عراقیوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ فلوجہ میں کیا ہو رہا ہے۔ وہاں کیا ہے جس سے سعودی عرب اتنا تشویش میں مبتلا ہے اور داعش کے چنگل سے 40 ہزار شہریوں کو آزاد کرنے کی کاروائی میں مانع تراشی کر رہا ہے؟