الوقت - جغرافیائی شام، دنیا کے نئے نظم و نسق تک رسائی کے لئے عالمی طاقتوں کی مخفی نیابی جنگ کا میدان ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ شام، ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان نیابتی جنگ کی چگہ ہے لیکن میری نظر میں جغرافیائی شام، صرف امریکا اور روس کے درمیان نیابی جنگ کا میدان نہیں ہے، ممکن ہو کہ اس میدان کے اصل کھلاڑی واشنگٹن اور ماسکو ہوں تاہم اس جنگ میں کچھ اہم بین الاقوامی کھلاڑیوں کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ شام کی نیابی جنگ میں ان کھلاڑیوں کی مشارکت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب اور علاقے کے کچھ ممالک کے درمیان بھی شام میں نیابتی جنگ جاری ہے۔ شام کا بحران اس لئے اہم ہے کہ ایران کے ایٹمی مسئلے کے حل اور فریقین کے درمیان اہم مفاہمت کے بعد بحران شام کا حل، امریکی تفسیر کے مطابق آئندہ کی دنیا کے نظم و نسق کے لئے ماحول بنانے کی جانب اہم قدم ہوگا۔ امریکی اس دنیا کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ان کا ملک دنیا کی سیکورٹی کا ٹھیکیدار رہے اور دنیا کے پانچ بڑے ممالک کی نگرانی میں اس کے امور آگے بڑھیں۔
اس طرح سے اس نکتے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ امریکا نے مشرق وسطی کی اپنی پالیسی کو شام میں عملی کر دیا ہے اور اپنے مد نظر نظام دنیا کے وجود میں آنے کا انتظار کر رہا ہے۔ اس طرح سے امریکا دنیا کی سیکورٹی کا ٹھیکیدار بن جائے گا اور پھر اس کی قیادت میں اس کو چلانے کی ذمہ داری بین الاقوامی کھلاڑیوں کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس طرح سے ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ شام میں امریکا اس قیادت و سربراہی کو مضبوط کرنے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے درمیان طاقت کے توازن کو برقرار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی لئے واشنگنٹن اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے علاقائی اور علاقے کے باہر کی تمام طاقتوں سے استفادہ کر رہا ہے۔ کرد بھی اس مسئلے میں مستثنی نہیں ہیں، نہ صرف کرد بلکہ کبھی کبھی تو اپوزیشن پارٹی بھی امریکی سیاست میں ساتھ ہو جاتی ہیں اور اسی کی دھن گنگنانے لگتی ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امریکا مشرق وسطی میں تین اہم اقدامات کرنے والا ہے جن میں سے دو پر اب تک وہ عمل کر چکا ہے۔ 1- علاقے میں ناامنی کا نظم و نسق 2- علاقے میں کمزوری کا توازن -3 علاقے میں نسبتا سیکورٹی میں توسیع۔ یہ تین اہم اقدامات ہیں جس کا سامنا علاقے کی بڑی طاقتوں خاص طور پر ایران کو امریکا کے ساتھ مستقبل میں ہوگا۔ اس کا مطالب یہ ہے کہ یہ چيز مستقبل میں جو واقعات پیش آنے والے ہیں اس پر اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
در ایں اثنا، ان تجزیوں کے بر خلاف جن میں کہا گیا ہے کہ امریکا شام کی تقسیم کی کوشش کر رہا ہے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ میری نظر میں علاقے کی تقسیم، امریکا کے مد نظر مطلوب نہیں ہے لیکن ان کا کچھ رجحان تو اس جانب ہے ہی۔ شام، عراق اور سعودی عرب کی تقسیم اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب امریکا علاقے کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے اور اس علاقے کی مد نظر سیکورٹی کی ذمہ داری اپنے اتحادی حریفوں یعنی یورپی یونین کو حوالے کردے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ امریکی علاقے کی نزاکت کو صحیح طریقے سے سمجھ نہيں سکیں ہیں ۔ امریکا کے لئے علاقے میں سب سے ہم چیلنج، خلیج فارس اور ایران ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکا کے لئے سب سے اہم چیلنج تہران ہے۔ اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شام کی تقسیم ، موجودہ وقت میں امریکیوں کے مد نظر نہیں ہے کیونکہ یہ تقسیم گولڈن بلٹ کو متاثر کر سکتی ہے اور اس کے ہاتھ سے اس کا کنٹرول نکل سکتا ہے۔
مہدی مطہر نیا : بین الاقوامی امور کے ماہر اور پروفیسر