الوقت : مذاکرات، دو یا چند گروہ، دو یا چند مختلف عقیدے کو نزدیک کرنے کی روش ہے لیکن برخلاف اس کے جس کا تقاضا مذاکرات کی فطرت کرتی ہے، زیادہ تر مذاکرات اس لئے کئے جاتے ہیں تاکہ اپنے مواقف پر زیادہ سے زیادہ تاکید کریں اور ان کے سیاسی مفاد کو اگے بڑھانے کے راستے کی رکاوٹ کو دور کر دیں۔
سعودی عرب نے جو یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ سے سیاسی اور سیکورٹی کی بحثوں میں اصل فریق ہے، اپریل 2016 کے کویت اجلاس سے پہلے تک سیاسی راہ حل پر کسی بھی طرح کی رغبت کا اظہار نہیں کیا لیکن ایک بار یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل ولد الشیخ احمد نے ایک بار یہ ذکر کیا کہ ایک مذاکرات کے ایک سنجیدہ مرحلے سے جنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور سعودی عرب کی فوج کے ترجمان احمد العسیری نے واضح طور پر کہا تھا کہ جنگ اپنے خاتمے سے نزدیک ہے لیکن یہ ہوا نہیں نہ صرف یہ کہ مذاکرات کے ذریعہ جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ کویت مذاکرات کے دوران دو ہفتے تک یمن کے مظلوم عوام پر شدید حملے ہوئے۔
یہ واضح ہے کہ سعودی عرب مفاہمت کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ وہ ایک ایسے ماڈل کے بارے میں فکر کرتا ہے جس سے یمن کے جوانوں کے 2011 کے انقلاب کو ناکام بنا دیں یعنی ایک معمولی سی تبدیلی جس سے یمن کے ڈھانچہ میں خاص تبدیلی نہ ہو۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ یمن کے حالات پوری طرح تبدیل ہو چکے۔ ریاض حکومت کو توقع ہے کہ یمن کی عوامی تحریک انصار اللہ ایک سیاسی کھیل میں الجھ جائے گی اور نابود ہو جائے گی۔ سعودی عرب کے سیاسی کھیل میں سیکورٹی کے مسئلے میں سعودی عرب کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اسی طرح سماج میں بھی باضابطہ انصار اللہ کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ انصاراللہ خود کو حوالے کرنے کے بعد اور اپنے سماجی اعتبار کو ختم کرنے کے بعد ایک ایسی سیاسی پارٹی تشکیل دے جو صرف اور صرف سیاسی رہے۔ اس طرح کے رویہ کا نتیجہ واضح ہے اور مکمل طور پر طبیعی ہے کہ انصار اللہ کے اب تک اتنے زیادہ افراد شہید ہوئے ہیں، وہ کبھی بھی سر تسلیم خم نہیں کرے گی اور اس غیر منصفانہ کو مذاکرات کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔
نکتہ یہ نہیں ہے کہ سعودی عرب کا کیا ارادہ ہے اور انصار اللہ کا کیا رد عمل ہے۔ کیا سعودی عرب میں یہ سب چیزیں برداشت کرنے کی توانائی پائی جاتی ہے؟ سعودی عرب تو دس دن میں ایک بڑا نتیجہ حاصل کرنے والا تھا، جنگ کے طولانی ہونا اس کی امیدوں کےک برخلاف تھا۔ ان حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یمن پر غیر ملکیون کی جنگ اور یمن کے مختلف گروہوں کا آپسی تصادم اسی وقت ختم ہوگا جب سعودی عرب کو یقین ہو جائے کاہ اسلحے کی طاقت پر نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔