الوقت - ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت کے ایک سال بعد 15 جنوری، 1994 کو نثار الدین احمد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ كرناٹک کے گلبرگ کے رہنے والے نثار کو بابری مسجد کی شہادت کی پہلی برسی پر ہوئے ٹرین بم دھماکوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان بم دھماکوں میں دو مسافروں کی موت ہو گئی تھی اور 8 زخمی ہو گئے تھے۔ 17 دن پہلے سپریم کورٹ نے انہیں اور ان کے ساتھ گرفتار دیگر دو نوجوانوں کو جے پور جیل سے رہا کر دیا ہے۔ وہ 23 سال سے جیل میں تھے۔
نثار نے بتایا کہ جب انہیں جیل میں ڈالا گیا تھا، اس وقت ان کی عمر 20 سال تھی۔ وہ تب فارمیسی سیکنڈ ایئر میں پڑھتے تھے۔ نثار نے بتایا کہ 15 دن بعد ایک امتحان ہونا تھا۔ میں کالج جا رہا تھا۔ پولیس کی گاڑی انتظار کر رہی تھی۔ ایک شخص نے پستول دکھائی اور مجھے زبردستی اندر بٹھا لیا۔ کرناٹک پولیس کو میری گرفتاری کے بارے میں کوئی خبر ہی نہیں تھی۔ یہ ٹیم حیدرآباد سے آئی تھی، وہ مجھے حیدرآباد لے گئے۔ ' نثار کو 28 فروری، 1994 کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
بعد میں نثار کے بھائی ظہیر کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بھی عمر قید کی سزا دی گئی تھی لیکن صحت کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے انہیں 9 مئی، 2008 کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔ انہیں پھیپھڑوں کا کینسر تھا۔ نثار کہتے ہیں، 'میں نے اپنی زندگی کے 8150 دن جیل کے اندر گزارے ہیں۔ میرے لئے زندگی ختم ہو چکی ہے۔ جسے آپ دیکھ رہے ہیں، وہ ایک زندہ لاش ہے۔ میں 20 سال کا ہونے والا تھا، جب انہوں نے مجھے جیل میں ڈال دیا۔ اب میں 43 سال کا ہوں۔ آخری بار جب میں نے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا تھا تب وہ 12 سال کی تھی، اب اس کی 12 سال کی ایک بیٹی ہے۔ میری بھانجی تب صرف ایک سال کی تھی، اب اس کی شادی ہو چکی ہے۔ میری کزن مجھ دو سال چھوٹی تھی، اب وہ دادی بن چکی ہے۔ پوری ایک نسل میری زندگی سے غائب ہو چکی ہے تاہم رہائی کے بعد نثار نے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا ہے لیکن ایک سوال پوچھا ہے، میری زندگی مجھے کون لوٹائے گا؟ بہت سی قانونی پیچیدگیوں سے جیل میں رہتے ہوئے نمٹنے کے بعد رہا ہوئے نثار کہتے ہیں، "میں سپریم کورٹ کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میری آزادی مجھے لوٹائی لیکن میری زندگی مجھے کون لوٹائے گا؟